تشکر وامتنان
اس اعلان کے بعد کہ میں تحریک قادیان پر اظہار خیالات کروںگا۔ مجھے تحریک قادیان کا ازسرنو مطالعہ کرنا پڑا۔ میں پہلے بھی ایک دفعہ عرض کرچکا ہوں اور اب دوبارہ وہی بات کہتا ہوں کہ اپنی تسلی کے لئے کسی مسئلہ کا سمجھ لینا ایک بات ہے اور اسی مسئلہ کا دوسرے کو سمجھانا بالکل جداگانہ امر ہے۔ جس کا اٹھانا اور دھرنا آسان نہیں۔ لہٰذا جس طرح مجھے یہ معلوم ہے کہ میں کیوں ہندو یا آریا یا یہودی یا عیسائی یا سکھ نہیں ہوں۔ اسی طرح مجھے یہ بھی علم ہے کہ میں قادیانی کیوں نہیں ہوں۔ تاہم اپنے دلائل کو دوسروں پر واضح کرنے کے لئے مجھے بعض کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت لاحق ہوئی۔ جن میں سے چند میرے پاس موجود تھیں اور باقیوں کے حصول کی خاطر میں نے جدوجہد کی۔ چنانچہ سب سے پہلے میں نے اپنے ایک قادیانی شناسا سے درخواست کی کہ وہ مجھے کوئی ایسی کتاب عاریتہ یا قیمتاً عطاء فرمائیں۔ جس میں جماعت قادیان کی طرف سے رسمی طور پر یہ اعلان ہو کہ مرزاقادیانی کے دعاوی کیا کیا ہیں اور ہمارے برادران قادیان کے عقائد کیا کیا ہیں۔ انہوں نے وعدہ تو کیا مگر وہ وعدہ ایفا نہ ہوا۔ میں نے ایک خط قادیان بھی لکھا اور وہاں سے متذکرہ صدر صفات کی کتاب طلب کی۔ لیکن ان کی طرف سے کوئی کتاب یا جواب مجھے موصول نہیں ہوا۔
اپنے مشاراً الیہ قادیانی دوست کے علاوہ میں نے مولانا محمد علی امیر جماعت احمدیہ (لاہور) کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ وہ اپنی جماعت کی کوئی ایسی رسمی کتاب مجھے عنایت فرمائیں جس میں مرزاقادیانی کے دعاوی اور احمدی جماعت لاہور کے معتقدات کی تشریح موجود ہو۔ ممدوح نے فی الفور اپنی کتاب ’’تحریک احمدیت‘‘ مجھے تحفتہً بھیج دی۔ مرزاقادیانی چونکہ کرشن ہونے کے بھی مدعی تھے۔ لہٰذا مجھے خواجہ کمال الدین صاحب آنجہانی کی کتاب ’’کرشن اوتار‘‘ کی بھی تلاش تھی۔ اس کے لئے میں نے خواجہ صاحب کے فرزند ارجمند کی خدمت میں رقعہ لکھا۔ جواب آیا کہ یہ کتاب اب ختم ہوچکی ہے۔ اس پر مولوی محمد علی صاحب کو دوبارہ تکلیف دی گئی۔ جنہوں نے کتاب کرشن اوتار ازراہ لطف وکرم عاریتہ میرے پاس بھیج دی۔ لیکن واپسی کے لئے تاکید کردی۔
ساتھی ہی میں نے ایک عریضہ مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسری کی خدمت میں لکھا۔ جنہوں نے حسب عادت مجھ پر مہربانی کی اور اپنی دوکتابیں عقائد مرزا اور تاریخ مرزا میرے پاس بذریعہ ڈاک مفت روانہ کردیں اور ڈاک کا خرچ بھی خود برداشت فرمایا۔