اس کے بعد قادیانی جماعت نے خاص پلان بنایا۔ قادیانی جماعت کے ایک تنظیمی سرکلر کی ہدایت کے مطابق ہرشہر میں قادیانی جماعت نے طلبہ کی گروپ بندی کی۔ مرزائی اساتذہ نے ان طلبہ کو مفت ٹیوشن کی سہولت فراہم کی۔ انہیں مالی امداد دی گئی اور مرزائی افسروں کی جانبداری نے ایسے طلبہ کو سول سروسز میں پہنچادیا۔ اسی طرح فوج میں بھی ان کی تعداد بڑھتی رہی۔
بیرونی طاقتوں سے تعلق
منصوبی کا تیسرا حصہ بیرونی ممالک کے ساتھ روابط تھے۔ چنانچہ قادیانی حضرات نے تمام بیرونی ممالک اور بالخصوص امریکہ سے اپنے خفیہ تعلقات اتنے وسیع کر لئے کہ جسٹس منیر ’’رپورٹ‘‘ کے مطابق ’’خواجہ ناظم الدین کا اپنا عقیدہ یہ تھا کہ اگر نوے فیصد علماء اس پر اتفاق کرلیں کہ مرزاغلام احمد کو ماننے والا کافر ہے اور اس کو سنگسار کر کے ہلاک کردیا جائے تو وہ اس کے آگے سرتسلیم خم کریںگے۔‘‘ (ص۳۱۳)
لیکن اس سلسلہ میں جب ایک وفد نے ان سے ملاقات کی تو ’’خواجہ ناظم الدین نے وفد کو بتلایا کہ میں نے اس مسئلہ پر بہت غور کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میرے لئے ان مطالبات کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔ اگر میں نے چوہدری ظفر اﷲ کو کابینہ سے برطرف کردیا تو پاکستان کو امریکہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں ملے گا۔‘‘
اسی طرح اسرائیل اور دیگر غیر اسلامی ممالک کے ساتھ قادیانیوں نے خفیہ تعلقات استوار کر لئے اور یوں ہماری حکومتوں کے لئے ایک Pressure Group کی حیثیت اختیار کرگئے۔
سیاسی پارٹیوں میں شمولیت
اپنے اس منصوبے کے چوتھے حصہ کے مطابق قادیانی حضرات کو ہدایت کے مطابق مختلف سیاسی پارٹیوں میں شامل کیا جاتا رہا۔ تقسیم سے پہلے قادیانی حضرات مسلم لیگ میں بھی شامل تھے اور کانگریس میں بھی۔ لاہور میں پنڈت نہرو کی آمد پر قادیانیوں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ تقسیم کے بعد بھی قادیانیوں کے گمنام افراد برسراقتدار جماعت کے علاوہ ہر اس جماعت کے ممبر بنوائے گئے۔ جس کے برسراقتدار آنے کا احتمال پایا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ نیشنل عوامی پارٹی میں بھی قادیانیوں کے افراد شامل تھے۔ پیپلز پارٹی میں ان کی شمولیت تو کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اب پیپلزپارٹی کی علانیہ حمایت کے باوجود قادیانی تحریک استقلال اور دوسری جماعتوں میں بھی گھس رہے ہیں۔