مغالطہ در مغالطہ
اور ملاحظہ ہو کہ جب لوگوں نے اس دورنگی پر اعتراض کیا تو اس کے جواب میں مرزاقادیانی نے یہ لکھا کہ: ’’ایڈیٹر الحکم نے (جو اس الہام کو ۳۱؍مئی ۱۹۰۴ء کے پرچہ خطوط وحدانی کے اندر متعلقہ طاعون لکھا ہے۔ ناقل) ایسا لکھنے مین غلطی کی اور ایسی غلطی خود انبیاء علیہم السلام سے پیش گوئیوں کے سمجھنے میں بعض دفعہ ہوتی رہی ہے۔‘‘ (ضمیمہ نصرۃ الحق ص۱۹، خزائن ج۲۱ ص۱۷۳)
اف رے غلط بیانی! آہ رے دروغ بافی! قارئین عظام ملاحظہ ہو کس قدر دھوکہ دیا ہے۔ آپ ہی تو اپنے اشتہار الوصیت میں اس کو متعلقہ طاعون لکھا۔ پھر اخبار الحکم ۲۴؍مئی ۱۹۰۴ء میں لفظ یہی کے ساتھ طاعون ہی سے حصر کیا۔ مگر یہاں معترض کے جواب میں ایڈیٹر الحکم والی تحریر کو پیش کر کے اس غلطی کو اس بے چارے ناکردہ گناہ کے سر تھوپ دیا۔ افسوس صدافسوس!
اوّل تو یہی جھوٹ ہے کہ اخبار الحکم ۳۱؍مئی ۱۹۰۴ء کے الفاظ ایڈیٹر الحکم کے ذاتی تھے۔ یقینا وہ موافق تشریح مرزاتھے۔ دوم بفرض محال تسلیم بھی کیا جائے تو خود مرزاقادیانی نے جو اپنی خود نوشت تحریروں میں اسے طاعون سے محصور کیا ہے۔ اس کا کیا جواب؟
احمدی دوستو! ایمان سے کہو کہ خدا کے نبی ایسے ہی ہوتے ہیں جو بات بات میں دورخی سہ رخی باتیں اور اپنی اغلاط کو دوسروں کے سرمڑھیں۔ انصاف!
الہامی دوکان کی پانچویں بوتل
براہین احمدیہ میں اپنے الہاموں کی نمبر شماری کرتے ہوئے (ص۵۵۷، خزائن ج۱ ص۵۵۷) پر ایک الہام یہ لکھا ہے: ’’الفتنۃ ہہنا فاصبر کما صبر اولوالعزم‘‘اس جگہ ایک فتنہ ہے۔ سو اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کر۔ ’’فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکا‘‘ جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا۔ قوۃ الرحمان بعید اﷲ الصمد یہ خدا کی قدرت ہے جو اپنے بندے کے لئے وہ ظاہر کرے گا۔
مرزاقادیانی کے اس خودساختہ بے تعین وتخصیص بے سروپا فقرہ سے ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ کے وقت جن مشکلات میں مرزاقادیانی گھرے ہوئے تھے۔ ان سے رہائی ہوگی۔ چنانچہ الفاظ ’’اس جگہ ایک فتنہ ہے‘‘ سے موجود فتن کا اظہار ہورہا ہے۔ ان سطور میں کوئی لفظ ایسا نہیں کہ آئندہ کسی دور دراز زمانہ میں جب مرزاقادیانی زیر تیغ ہوںگے۔ محفوظ رہیںگے۔
سترہ سال بعد
۱۸۹۷ء میں جب کہ مرزاقادیانی کا ایک اشد مخالف پنڈت لیکھرام کسی ظالم سفاک