ویسی مدد نہیں کرتے جیسی کہ آپ کرسکتے ہیں۔‘‘
میر صاحب نے پوچھا وہ کیا تو جواب ملا کہ: ’’آپ مقامی اسلامیہ انجمن کے صدر ہیں۔ مسجد جامع آپ کے انتظام میں ہے۔ لیکن انجمن کے مبلغ اور مسجد کے امام صاحب قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں۔‘‘
مجھے ذاتی طور پر ایسے نوجوانوں سے سابقہ پڑا ہے۔ جنہیں قادیانی حضرات نے اس شرط پر ملازمت دلوانے کا وعدہ کیا کہ وہ قادیانی ہو جائیں۔ نیز مجھے بعض ایسے نوجوانوں کا حال معلوم ہے جو محض ملازمت کے لئے قادیانی بن گئے۔ میری رائے یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے قادیانی جماعت کے نوجوان کے لئے حصول ملازمت زیادہ آسان ہے۔ (سید)حبیب
تتمہ دوم
تحریک قادیان
اس کی اصلاح کے ذرائع کیا ہیں؟
تحریک قادیان کی ظاہری کامیابی کے متعلق جو کچھ میں لکھ چکا ہوں۔ اگر غور سے اس کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں اس تحریک کی اصلاح کا مواد بھی موجود ہے۔ لیکن اس خیال سے کہ یہ نکات ذرا واضح تر ہو جائیں۔ میں اس تحریر میں صرف اصلاح قادیان کے موضوع پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔ اصلاح عقائد قادیان سے میری مراد مرزاقادیانی کے صرف ان مریدوں کی اصلاح ہے جو عرف عام میں قادیانی کے نام سے معروف ہیں۔ اس لئے کہ جہاں تک احمدی جماعت لاہور کا تعلق ہے میں اس کو اسلام یا مسلمانوں کے لئے خطرناک نہیں سمجھتا۔ ان کے عقائد میں یہ تضاد موجود ہے کہ وہ مرزاقادیانی کو نبی مانتے بھی ہیں اور نہیں بھی مانتے۔ لہٰذا جو عام لوگ ان کے ہم خیال ہیں۔ ان کو خود یہ معلوم نہیں کہ ان کے عقائد کیا ہیں اور کچھ اس تضاد عقائد کی وجہ سے اور بہت زیادہ اس وجہ سے کہ جماعت لاہور کے امیر مولانا محمد علی صاحب ایم۔اے کا استدلال یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے تنسیخ جہاد کا اعلان ہی نہیں کیا اور یوں یہ جماعت کسی غیر مسلم طاقت کے لئے مفید نہیں رہی۔ ان کی جماعت ترقی نہیں کر رہی اور نہ اس کی ترقی کرنے کی کوئی توقع ہی باقی ہے۔ مولانا محمد علی صاحب کی بے نظیر قابلیت استعداد ومحنت کی وجہ سے اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ اور ڈاکٹر سید محمد حسین صاحبان کے اخلاص کے باعث یہ جماعت زندہ ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ چند افراد پر جس تحریک کا دارومدار ہو وہ حیات جاودانی کی متوقع نہیں ہوسکتی۔