ایک حد تک مستوجب سزا ٹھہرنے میں اور جہنمی ہونے میں تو بہت بڑا فرق ہے۔ لہٰذا میرے احمدی بھائی اگر اس تفریق کی توضیح فرماسکیں تو باعث ممنونیت ہوگا لیکن اس پر اکتفا نہیں۔ آپ اپنی کتاب (تریاق القلوب ص۱۳۱، خزائن ج۱۵ ص۴۳۲) میں لکھتے ہیں کہ: ’’اپنے دعویٰ کا انکار کرنے والوں کو کافر کہنا صرف ان نبیوں کی شان ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے شریعت اور احکام جدیدہ لاتے ہیں۔ لیکن صاحب شریعت کے ماسوا جس قدر ملہم اور محدث ہیں۔ گو وہ کیسی ہی جناب الٰہی میں اعلیٰ شان رکھتے ہوں اور خلعت مکالمہ الٰہیہ سے سرفراز ہوں ان کے انکار سے کوئی کافر نہیں بن جاتا۔‘‘
مجھے یہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ مرزاقادیانی صاحب شریعت نہیں ہیں۔ ان حالات میں ان کا اپنے قول کے خلاف منکر خود کو کافر بنادینا کہاں تک جائز ہے۔ اس کا فیصلہ خود مسلمان کر سکتے ہیں۔ ’’وما علینا الا البلاغ‘‘
قسط سیوم (۳۰)
اپنے اس قول کے باوجود تکفیر اہل قبلہ میںمرزاقادیانی نے اس قدر مبالغہ سے کام لیا کہ انہوں نے اپنے معتقدین کو مسلمانوں کے ساتھ نماز تک پڑھنے سے روک دیا۔ چنانچہ آپ اپنی کتاب (اربعین ص۳، خزائن ج۱۷ ص۴۱۷) اور اسی کتاب کے ص۲۸ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں کہ: ’’اس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہیں۔ اس لئے کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔ کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے۔ پس یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے۔ تمہارے پر حرام اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا مترود کے پیچھے نماز پڑھو۔ بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ: ’’امامکم منکم‘‘ یعنی جب مسیح نازل ہوگا اور تمہارا امام تم میںسے ہوگا۔ پس تم ایسا ہی کرو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو اور تمہارے عمل ضبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو۔ جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہرحال میں مجھے حکم ٹھہراتا ہے اور ہر ایک تنازع کا فیصلہ مجھ سے چاہتا ہے۔ مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا۔ اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤگے۔ پس جانو کہ وہ مجھ سے نہیں۔ کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا۔ اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں۔‘‘