جماعت مرزائیہ مدعی تھے۔ اس لئے حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب نے زیادہ تر توجہ ان کی پیش کردہ دلائل کی قلعی کھولنے میں کی۔ ہاں جب مرزائیوں نے خود مولانا صاحب سے کہا کہ آپ کسی دلیل سے حیات مسیح ثابت کریں تو مولانا صاحب نے نہ صرف قرآن واحادیث بلکہ قول مرزا سے بھی حضرت مسیح کا آسمانوں پر جانا، دوبارہ تشریف لانا اور پینتالیس برس زمین میں رہ کر مدینہ شریف میں حجرۂ نبویہ میں مدفون ہونا ثابت کیا۔
دلیل اوّل حضرت مسیح کا رفع آسمانی ونزول ثانی مرزاقادیانی کی زبانی
مرزاقادیانی (براہین احمدیہ ص۳۶۱ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۴۳۱) پر رقمطراز ہیں۔ ’’سو حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص ہی چھوڑ کر آسمانوں پر جابیٹھے۔‘‘ عبارت بالا سے حضرت مسیح کا رفع آسمانی ثابت ہے۔ اب سنئے ان کے نزول ثانی کا ثبوت۔ مرزاقادیانی اسی کتاب (براہین احمدیہ ص۴۹۸،۴۹۹ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۵۹۳) پر لکھتے ہیں۔ ’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ‘‘ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیاگیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیںگے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘ مرزاقاداینی کی یہ تحریر محتاج تشریح نہیں بالفاظ اصرح حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی وہ بھی بخیال خود نہیں بلکہ بتمسک آیت قرآنی کا اقرار واظہار ہے۔ اس کی مزید وضاحت اسی (براہین احمدیہ ص۵۰۵، خزائن ج۱ ص۶۰۱) پر یوں مسطور ہے۔ ’’وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خداتعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور غضب اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر آئیںگے۔‘‘
جواب مرزائی
اس کے جواب میں مرزائیوں کی طرف سے یہ نہایت لغو، لچر، بودا عذر کیاگیا کہ مرزاقادیانی نے براہین احمدیہ میں رسمی عقیدہ کی بناء پر ایسا لکھا اور قبل از علم ایسا ہونا انبیاء سے پایا جاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ تیرہ مہینے (صحیح سترہ ماہ ہیں۔ ناقل) بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے رہے۔