بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
قراردار اقلیت
وہ محض ایک قرارداد ہی نہ تھی اس دور کا سب سے بڑا اعلان بھی تھا۔ ایسا اعلان جس میں کروڑوں اہل ایمان کے دل کی دھڑکنیں اور ان کے ایمانی ولولے کی تپش شامل تھی۔ آزاد کشمیر اسمبلی نے مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی قرارداد پاس کر کے نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پاکستان اور عالم اسلام کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبے کو قانونی شکل دی اور اس طرح انگریز کی سازش سے جنم لینے والا یہ ٹولہ آزاد کشمیر میں اقلیت قرار دیاگیا۔ اب وہاں مرزائیوں کو غیر مسلم لکھا اور سمجھا جائے گا۔ اب ان کے لئے مسلمانی کا روپ دھار کر امت مسلمہ کو تباہ وبرباد کرنے کی سازشیں تیار کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اب ان کے عزائم اور ارادے بے نقاب ہوںگے اور اب وہ جاسوسی کے لئے اپنی سرگرمیاں پہلے انداز میں جاری نہ رکھ سکیںگے۔
قادیانیوں کی بوکھلاہٹ
یہی وجہ ہے کہ اس قرارداد کے سامنے آتے ہی ربوہ سے اسلام آباد تک قادیانیوں میں اضطراب کی ایک لہر دوڑ گئی۔ علانیہ اور خفیہ سرگرمیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔ پمفلٹ لکھے اور تقسیم کئے گئے۔ حکام بالا کو اپنی وفاداریوں کے حوالے دے دے کر ان سے امداد چاہی گئی اور مرزاناصر احمد سے لے کر منظور احمد ایڈووکیٹ تک ہر ایک نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔ یوں محسوس ہوا جیسے ربوہ میں بھونچال آگیا ہو اور بہشتی مقبرے کی ہڈیاں حیران وششدر رہ گئی ہوں۔
مرزائی امت کے امام مرزاناصر احمد نے اسی جمعہ کو مسجد میں خطاب کیا اور کہا: ’’اگرچہ مجھے گرمی اور پھر شدید نزلہ، کھانسی اور بیماری نے آگھیرا۔ لیکن چونکہ میں اپنے بھائیوں سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا تھا۔ اسی لئے جمعہ پڑھانے آگیا ہوں۔‘‘ (قرارداد پر تبصرہ ص۱)
مرزائی امت میں جس گھبراہٹ کی لہر دوڑ گئی۔ اس کا حال خود امام جماعت احمدیہ بیان کرتے ہیں۔ ’’چنانچہ دوستوں نے مجھے فون کئے۔ میرے پاس آدمی بھجوائے۔ خطوط آئے، تاریں آئیں۔‘‘ (قرارداد پر تبصرہ ص۲)
ان کی یہ گھبراہٹ بجا بھی تھی۔ کیونکہ اب تک مرزائی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنی فریب کاری کا کھیل کھیلتے رہے۔ اب آزاد کشمیر اسمبلی نے ان کی فریب کاری کاپردہ چاک چاک کر دیا تھا