بلکہ قرآن حکیم جب یہ بتانا چاہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ خدا نہیں ہے تو وہ دور کے لوازم کا تذکرہ کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے: ’’ان مثل عیسیٰ عنداﷲ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون(آل عمران)‘‘ {مسیح کی مثال عنداﷲ ایسی ہے جیسے آدم کی کہ اﷲ نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اسے کن فیکون کہا۔}
کبھی فرماتا ہے: ’’انیٰ یکون لہ ولد ولم یکن لہ صاحبۃ (الانعام)‘‘ {خدا کے بیٹا کیسے ہوسکتا ہے۔ جبکہ اس کی جورو ہی نہیں۔}
کبھی ارشاد ہوتا ہے: ’’کانا یاکلان الطعام (المائدہ)‘‘ {مسیح اور اسکی ماں تو کھانے کی احتیاج بھی محسوس کرتی تھیں۔}
اور یوں نہیں فرمادیتا کہ عیسائیو! تم کس پھیر میں ہو جو مرچکا وہ خدا کیونکر ہوسکتا ہے۔ حالانکہ قرآن کے اسلوب بیان کی یہ نمایاں خوبی ہے کہ جب وہ اعتراض کرتا ہے تو ایسی پوزیشن اختیار کرتا ہے جو زیادہ مظبوط ہو اور اس باب میں اس کو آخری پوزیشن یا فیصلہ کن پوزیشن قراردیا جاسکے۔ مسیح کا آدم کی طرح ہونا یا خدا کی جورو نہ ہونا یا مسیح یا اس کی ماں کا کھانا کھانا اعتراضات تو ہیں۔ لیکن فیصلہ کی جو طاقت اس وار میں ہے کہ مسیح کا انتقال ہوچکا ہے وہ ان میں بالکل نہیں۔ لہٰذا اگر قرآن نے وضاحت کی یہ پوزیشن اختیار نہیں کی تو لامحالہ اس کے یہ معنی ہوں گے کہ قرآن کے نقطہ نظر سے مسیح کی موت متیقن نہیں۔ ورنہ وہ بھی اس اعتراض سے نہ چوکتا۔
کیا مناظرہ جنگ ہے؟
وفات مسیح کا مسئلہ اس وقت موضوع بحث نہیں۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ مناظرانہ کج بحثی کیونکر اصابت فکر سے روکتی ہے اور کسی طرح واضح اور فیصلہ کن متعلقات کو نظروں سے اوجھل رکھتی ہے۔ نوک جھونک اور دلائل وبراہین کی نمائش اور بات ہے اور حقیقت تک رسائی بالکل دوسری شے۔ جن لوگوں نے مناظروں کو دیکھا ہے اور سنا ہے۔ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ فریقین کس طرح بحث میں ایک دوسرے کو الجھاتے ہیں۔ حیرت وپریشانی کے کیاکیا سامان پیدا کئے جاتے ہیں اور کس کس انداز میں مخالف کی سادگی سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کس کس طرح غلط بیانی کی جاتی ہے؟ اور اسے الحرب خدعۃ کہہ کر جائز ٹھہرایا جاتا ہے۔
حالانکہ یہ سرے سے حرب ہی نہیں۔ یہاں تو غرض افہام وتفہیم ہے۔ یعنی اپنی بات سمجھانا اور دوسرے کی سمجھنا مقصود ہے۔ لیکن وہ اس اعتبار سے اسے حرب کہنے میں حق بجانب ہیں