۸… ’’واذ علمتک الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل (المائدہ:۱۱۰)‘‘ مریم کو خوشخبری دی گئی تھی کہ تیرے بیٹے کو اﷲتعالیٰ الکتاب والحکمۃ سکھلائے گا۔ اس آیت نمبر۸ میں یہ ذکر ہے کہ قیامت کے دن اﷲتعالیٰ مسیح کو احسان جتلائے گا کہ میں نے تجھ کو الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل سکھلائی۔ جو لوگ پارہ تین میں الکتاب والحکمۃ یعنی التوراۃ والانجیل معنی کرتے ہیں۔ وہ یہاں بھی یہی معنی کریںگے کہ اﷲتعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ میں نے تجھ کو الکتاب والحکمت یعنی تورات اور انجیل سکھلائی۔ افسوس قرآن نہ ہوا۔ بجھارتوں کا مجموعہ ہوا۔ اگر تورات اور انجیل ہی سے مراد ہوتی تو الکتاب والحکمۃ لانا بے فائدہ۔
۹… ’’واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکن من اٰیات اﷲ والحکمۃ (الاحزاب:۳۴)‘‘ اس آیت میں الکتاب کی بجائے آیات کا لفظ ہے جو ہمارے مدعا کی اور بھی تائید کرتا ہے۔
۱۰… ’’ھو الذی بعث فی الامین رسولاً منہم یتلواعلیہم اٰیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ (الجمعۃ:۲)‘‘ گویا قرآن مجید نے الکتاب والحکمت کے معانی کو مقید کر دیا ہے کہ ان سے مراد قرآن وبیان قرآن ہی ہے اور بس۔
حضرت مسیح کو قرآن کریم کون سکھلائے گا
’’ویعلمہ الکتاب والحکمۃ (آل عمران:۴۸)‘‘
یعنی عیسیٰ ابن مریم کو اﷲتعالیٰ الکتاب والحکمت یعنی قرآن مجید سکھلائے گا۔ پس مسیح ابن مریم کو کسی مکتب میں جانے اور بشر استاد سے تعلیم قرآن حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ بلکہ وہ اﷲتعالیٰ کا شاگرد ہوگا۔
نتیجہ: اﷲتعالیٰ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرآن مجید سکھلانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی دوبارہ خود دنیا میں تشریف لائیںگے اور قرآن مجید پر عمل کریںگے۔ ان کی جگہ کوئی ایسا شخص جس نے انسانوں سے تعلیم حاصل کی ہو اور بار بار آیات قرآنی کے مفہوم ومعانی کے متعلق غلطیاں کرکے ٹھوکریں کھائی ہوں اور اپنی غلطیوں سے رجوع کیا ہو، نہیں آسکتا۔ جیسا کہ مرزاقادیانی۔