واضحتہً معلوم ہوتا ہے کہ متکلم کا یہ عقیدہ نہیں اور نہ ان کو حق سمجھتا ہے۔ مگر یہ مرزاقادیانی کی تحریرات میں مفقود ہے۔ بلکہ بعض مقامات میں ایسے تصریحات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی کے نزدیک یہی صحیح ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ: ’’عیسائیوں نے بہت سے معجزات آپ کے لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰)
پس غور کرنا چاہئے کہ مرزاقادیانی جس چیز کو حق قرار دے رہے ہیں کیا یہ بھی الزام ہے۔ یا مرزاقادیانی کے عقیدہ کو ظاہر کرتا ہے۔ علیٰ ہذا (اعجاز احمدی ص۱۴، خزائن ج۱۹ ص۱۲۱) کا یہ حوالہ پہلے بھی لکھا جاچکا ہے۔
’’ہائے کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں اور آج کون زمین پر ہے کہ اس عقدہ کو حل کر سکے۔‘‘
مرزاقادیانی اس عبارت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیشین گوئیوں کو صاف جھوٹی بتلا کر تمام لوگوں کو خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی وغیرہ۔ سب کو چیلنج کیا ہے کہ کوئی ہے جو اس عقدہ کو حل کر سکے۔ گویا یہ عقدہ ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی نے اس کو صرف عیسائیوں پر بطور الزام پیش نہیں کیا۔ ورنہ چیلنج عام نہ کرتے بلکہ ان پیشین گوئیوں کے جھوٹے ہونے پر اپنے یقین کا اظہار بہت تعلی اور تحدی سے کیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں جو اہانت اور سخت کلامی کی ہے وہ عیسائیوں کے مقابل میں بطور الزام نہیں۔ بلکہ اپنی تحقیقات اور عقائد کا اظہار کیا ہے۔
مرزائیوں کا جواب ثالث
مرزائی صاحبان ایک یہ جواب بھی دیا کرتے ہیں کہ پادریوں نے حضورﷺ کی شان اقدس میں نہایت ناپاک الفاظ استعمال کئے تھے۔ چونکہ مرزاقادیانی کو حضورﷺ سے عشق اور فدائیت تھی۔ اس عشق محمدیؐ اور فدائیت نبوی سے مجبور ہوکر مرزاقادیانی نے پادریوں کے نبی کے حالات ان پر ظاہر کئے ہیں اور اس کی تائید میں مرزاقادیانی کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں۔ ’’بالآخر ہم لکھتے ہیں کہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال وچلن سے کچھ غرض نہ تھی۔ انہوں نے ناحق ہمارے نبیﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں۔ چنانچہ اسی پلید نالائق فتح مسیح نے اپنے خط میں جو میرے نام لکھا ہے۔