اور اس آیت میں انہیں یہ بتایا ہے کہ میرے بعد انبیاء آتے رہیںگے۔ ان کو ضرور ماننا۔ چنانچہ وہ آتے رہے۔ یہاں تک کہ اس کی مصلحت نے اس کے دروازے بند کردئیے۔
یہی حال پانچویں آیت کا ہے کہ بلاشدید تصرف کے اجرائے نبوت پر استدلال سخت دشوار ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ انبیاء جب بھی آئے ہیں۔ انہوں نے اکل حلال اور عمل صالح کی طرف ہی بلایا ہے۔
چھٹی اور ساتویں آیت سے استدلال تو بالکل ہی مضحکہ خیز ہوگیا ہے۔ قرآن حکیم یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قوم نے نہ صرف یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو نہ مانا۔ بلکہ جب ان کا انتقال ہوا تو انہوں نے خوش ہو ہوکر یہ کہا کہ چلو چھٹی ہوئی۔ اب تو کوئی رسول نہیں آئے گا۔ جو ہمیں ہمارے گناہوں پر ٹوکے اور ہماری خواہشات کے خلاف رشد وہدایت کی راہوں پر ڈالے۔ یعنی ان کی خواہش ازراہ کفر وانکار یہ تھی کہ اﷲ کا کوئی رسول آئندہ نہ آنے پائے اور ہماری ازراہ ایمان یہ ہے کہ چونکہ نبوت کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ اس لئے اب کوئی جعل ساز ہماری سمع خراشی نہ کرے۔ داعیات کفروانکار اور داعیات ختم وتکمیل میں بڑا فرق ہے۔
یہی حال جنوں کا تھا کہ ان پر بھی کفروانکار کی وجہ سے مایوسی کا عالم طاری تھا۔ کسی نص دینی کی بناء پر نہیں۔ اس لئے فرمایا کہ میں اس مایوسی کو ختم کرنے کے لئے آگیا ہوں۔ آٹھویں آیت سے اجرائے نبوت پر یوں استدلال فرمایاگیا ہے کہ چونکہ خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ اتمام حجت سے پہلے عذاب نہیں بھیجتا۔ اس لئے اب جب کہ طرح طرح کے عذاب آرہے ہیں۔ ہمیں اتمام حجت کی قطعی ضرورت ہے اور وہ اس وقت تک نہیں ہوتی۔ جب تک کہ ایک نبی نہ آجائے۔ لہٰذا نبوت جدیدہ کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ ان گوناگوں عذابوں کی کوئی توجیہہ بیان کی جاسکے۔ حالانکہ اس آیت میں اس کے آنے کا کہیں ذکر نہیں۔ جو فرمایا ہے وہ صرف اس قدر ہے کہ اﷲ کا عذاب اتمام حجت کے بعد آتا ہے اور کون کہتا ہے کہ وہ موجود نہیں۔ کیا اسلام اﷲ کی سبب سے بڑی حجت نہیں۔ کیا یہ ساری تکلیفیں اور یہ سارے عذاب بنی آدم پر اس لئے نہیں آرہے کہ یہ اﷲتعالیٰ کے پیغام کو جھٹلارہے ہیں۔
فیصلہ کن تنقیح… کیا نبوت صرف اعزاز ہے؟
یہاں تک توبحث کا رنگ منقولی تھا۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ عقلی چھان بین ہمیں کن نتائج تک پہنچاتی ہے۔ اس سلسلہ کی فیصلہ کن تنقیح یہ ہے کہ نبوت کی ضرورت کیوں پیدا ہوئی۔ کیا یہ صرف ایک طرح کا اعزاز یا شرف اور فضل ہے۔ جس سے اﷲ نے اپنے بندوں کو مختلف زمانوں