پیغمبر مناظر نہیں ہوتا، حکیم ہوتا ہے
جس طرح حاذق طبیب کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ مریض کی ایک ایک بیماری کو پہچانتا ہو اور پھر اسے یہ بھی معلوم ہو کہ ان بیماریوں میں زیادہ اہم اور توجہ طلب بیماری کون ہے؟ ٹھیک اسی طرح انبیاء کا ہاتھ قوم کی نبض پر ہوتا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ جسم وروح پر کن کن امراض کاحملہ ہے۔ پھر انہیں اس شے کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کن عوارض کا علاج پہلے ہونا چاہئے اور کون عوارض بعد میں توجہ طلب رہیںگے۔
پھر جس طرح اصلی شئے تشخیص ہی نہیں اور بیماریوںکے مدارج مختلفہ کی پہچان ہی نہیں۔ بلکہ معالجہ ہے۔ یعنی اچھا اور کامیاب طبیب وہی نہیں جو ایک نظر میں عوارض کی تہ تک پہنچ جائے۔ بلکہ وہ ہے جو اس انداز سے مریض کا علاج کرے۔ جو واقعی اس کے لئے صحت بخش اور مفید ہو۔ یہیں سے ایک طبیب اور حکیم کی راہیں جداجدا ہوتی ہیں۔ طبیب صرف علائم ظاہری کو جانتا ہے۔ ادویہ اور ان کے خواص کی معرفت سے بہرہ مند ہے۔ اس سے زیادہ نہیں اور حکیم کی نظر مریض کی حالت نفسی پر بھی رہتی ہے۔ اسے اس کا بھی علم ہے کہ معالجہ کے مختلف ومتعدد طرق میں سے کون طریق ذہنی ونفسیاتی اعتبار سے زیادہ مفید رہے گا۔ کیونکہ ایک مریض طبیب سے جو بنیادی توقع رکھتا ہے وہ یہی ہوتی ہے کہ جسم سے پہلے اس کی روح کو چارہ سازی کی افادیت کا یقین ہو جائے اور بیماری نے پے بہ پے حملوں سے جن صلاحیتوں کو ختم کردیا ہے وہ پھر لوٹ آئیں۔ علاج ومعالجہ اس کے بعد کی شئے ہے۔
اسی طرح ایک پیغمبر کی کامیابی یہی نہیں کہ وہ قومی جسم کے تمام عوارض سے آگاہ ہو۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کا طریق علاج حکیمانہ ہو۔ اس میں یہ رعایت رکھی گئی ہو کہ نسخہ ایسا تجویز ہو کہ جس سے روح کی بالیدگی کا اہتمام سب سے پہلے ہو۔ علاج اس ڈھنگ سے ہو کہ ذہن کی تازگی اور قلب کی بشاشت سب سے پہلے پلٹ کر آئے۔ نبوت کا یہ عام پیمانہ ہے۔ جس کی تعیین کے لئے بہت بڑے علم کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ہر وہ شخض جو اس کے حدود سے تھوڑی سی واقفیت بھی رکھتا ہے اور اس کے مذاق سے آشنا ہے اس کو جانے گا۔
آئیے! اس صدی کے قومی امراض کا جائزہ لیں اور پھر دیکھیں کہ بحیثیت مریض کے ہماری توقعات ایک پیغمبر سے کیا ہوسکتی ہیں۔ ہمارے نزدیک سب سے بڑا عارضہ جس سے ہم دوچار ہوئے اور اب تک جس کے اثرات سے ذہن محفوظ نہیں ہیں۔ وہ مرعوبیت کا عارضہ ہے۔