کسی کی کوئی بات بری معلوم ہوتی تو مجلس میں نام لے کر اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ بلکہ صیغہ تعمیم کے ساتھ فرماتے تھے کہ لوگ ایسا کرتے ہیں۔ لوگ ایسا کہتے ہیں۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہے۔ یہ طریقہ ابہام اس لئے اختیار فرماتے تھے کہ شخص مخصوص کی ذلت نہ ہو اور اس کے احساس غیرت میںکمی نہ آجائے۔ (سیرۃ النبی ص۲۳۵)
قادیانی پیمبر
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو بدزباں ہے
جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا یہی ہے
(درثمین اردو ص۸۲)
ان العدا صاروا خنازیرا الفلا
نساء ہم من دونہن الا کلب
(نجم الہدیٰ ص۱۰، خزائن ج۱۴ ص۵۳)
یعنی میرے مخالف جنگلوں کے سور ہیں اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ کر ہیں۔
’’ذالک کتب ینظر الیہا کل مسلم بعین المحبۃ والمودۃ وینتفع من معارفہا ویقبلنی ویصدق دعوتی الا ذریۃ البغایا۰ الذین ختم اﷲ علیٰ قلوبہم فہم لا یقبلون‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۷،۵۴۸، خزائن ج۵ ص ایضاً)
’’یعنی ان میری کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور ان کے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے قبول کرتا ہے۔ مگر رنڈیوں کی اولاد جن کے دلوں پر خدا نے مہر کردی ہے وہ مجھے قبول نہیں کرتے۔‘‘
’’اے بدذات فرقہ مولویاں تم کب تک حق کو چھپاؤ گے۔ کب وہ وقت آئے گا کہ تم یہودیانہ خصلت کو چھوڑوگے۔‘‘
اے ظالم مولویو! تم پر افسوس کہ تم نے جس بے ایمانی کا پیالہ پیا وہی عوام کالانعام کو بھی پلایا۔ (انجام آتھم ص۲۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً)
’’بعض جاہل سجادہ نشین اور فقیری مولویت کے شتر مرغ۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۱۸، خزائن ج۱۱ ص۳۰۲ حاشیہ)
’’مخالف مولویوں کا منہ کالا کیا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۸، خزائن ج۱۱ ص۳۴۲)