نہیں جو اسلام نے مسلمانوں کے ساتھ خاص کیا ہو اور پھر ہم کو اس سے نہ روکا گیا ہو۔‘‘
(کلمتہ الفصل ص۱۶۹، مصنفہ صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی)
قادیانیوں کی ان تمام تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو ان کے مسلمانوں کے بارے میں نظریات واضح ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک تمام مسلمان جو مرزاغلام احمد قادیانی کے منکر ہیں۔ کافر، دائرہ اسلام سے خارج، مشرک،یہودی، کنجریوں، بدکاروں اور کتیوں کی اولاد ہیں۔ وہ جنگلوں کے خنزیر، بیابانوں کے سؤر اور ولد الحرام ہیں۔ ان کے پیچھے نماز ناجائز اور قطعی حرام ہے۔ ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جاسکتی۔ ان کی لڑکیوں سے نکاح حرام ہے۔
وہ افراد جو مرزائیوں کے کاروباری اخلاق سے گھائل ہوجاتے ہیں۔ ان کے عاجزانہ رویہ سے متأثر ہوتے ہیں۔ ان کی چاپلوسی کے فریب میں پھنستے ہیں اور ان کے چہروں پر ظاہر تقویٰ کی خشکی دیکھ کر ان کے باطن کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی کی تحریر کی روشنی میں سوچیں کہ قادیانی تو انہیں یہودی عیسائی کی حیثیت سے سلام کرتے ہیں۔
سوچنے کا مقام
سوچنے کا مقام ہے کہ ہم اتنے بے حس کیوں ہوگئے۔ اقلیت اکثریت کو غیر مسلم قرار دے رہی ہے اور اکثریت بے بس ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہ کیا رہوڈیشیا کی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ اگر ہماری غفلت کا یہی عالم رہا تو پھر رہوڈیشیا کی طرح یہاں بھی اقلیت اکثریت پر حکومت کرنے لگے گی۔ قادیانی بڑی خاموشی کے ساتھ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔
یہ ہماری غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ اقلیت اکثریت کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر ملازمتوں پر قابض ہورہی ہے۔ اگر اقلیت کو اقلیت قرار دیا جاتا تو یہ صورت پیدا نہ ہوتی۔ قادیانی اپنی آبادی کے لحاظ سے صرف ایک فیصد ملازمتیں حاصل کرتے۔ جیسا کہ علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔ ’’ملت اسلامیہ کے اندر رہنے کا پھل جو انہیں سرکاری ملازمتوں کے دائرہ میں سیاسی مفادات کے حصول کی صورت میں ملتا ہے۔ اس سے قطع نظریہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ان کی موجودہ آبادی کی بنیاد پر جو تازہ ترین مردم شماری کی روشنی میں صرف چھپن ہزار ہے۔ انہیں ملک کی کسی مقننہ میں ایک نشست کا بھی استحقاق حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ (روزنامہ اسٹیٹ مین مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۳۵ئ)