(خطبہ الہامیہ ص۲۳، خزائن ج۱۶ ص۵۶) پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’مجھ کو فنا کرنے اور زندہ کرنے کی صفت دی گئی ہے۔‘‘
لیکن مرزاقادیانی کی تعلی کی انتہاء یہ ہے کہ آپ لکھتے ہیں کہ انہیں الہام ہوا تھا کہ: ’’انما امرک اذا اردت شیئا ان تقول لہ کن فیکون‘‘
یہ الہام (البشریٰ ج۲ ص۹۴) پر درج ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ خداوند کریم نے مرزاقادیانی سے کہا کہ: ’’اے مرزا تحقیق تیرا ہی حکم ہے۔ جب تو کسی شے کا ارادہ کرے تو اس سے کہہ دیتا ہے کہ وہ جا، پس وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
مجھ گنہگار کا یہ عقیدہ ہے کہ کن فیکون کا دعویٰ خداوند تعالیٰ کے سوا کسی کے شایان شان نہیں اور سید ہاشمی نسب امی لقب (فداہ روحی) نے بھی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ اگر یہ حال بروزی نبی کا ہے تو مستقل نبی کا کیا ہوگا۔
میری رائے یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنی نبوت کے مدارج اس لئے قائم کردئیے کہ ذرا سا پھسلنے والا انسان بھی پھسل کر اس طرف آجائے۔ ’’واﷲ اعلم باالصواب‘‘
قسط یازدہم
مختصر یہ کہ مرزاقادیانی ایک مقام پر دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خدا کے نبی اور رسول ہیں اور تمام انبیاء سے (جن میں جناب محمد رسول اﷲﷺ شامل ہیں) افضل ہیں اور اس دعویٰ پر خدا کی قسم کھاتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ وہ بروزی اور ظلی نبی ہیں جو بہ الفاظ دیگر محدث ہوتا ہے۔ لیکن اپنا مقام تمام انبیاء علیہم السلام سے ارفع واعلیٰ ظاہر کرتے ہیں اور اس کے بعد اچانک ادّعائے نبوت سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا اسلام سے خارج ہے وغیرہ وغیرہ۔ ادّعائے نبوت کی بھول بھلیاں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی کے بعض الہامات ایسے ہیں جو خود ان کی سمجھ میں نہیں آئے۔ لہٰذا لازم ہے کہ ایسے الہامات کی تفہیم کے واسطے خداتعالیٰ مزید نبی مبعوث کرے۔ گویا مرزاقادیانی نے احیائے نبوت کا ایک سلسلہ جاری کردیا ہے اور یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے نبی آئیںگے۔ جو ان الہامات کے معانی دنیا پر واضح کریںگے۔ پس
دسویں دلیل
جو مجھے مرزاقادیانی کی تحریک کے قبول کرنے سے مانع ہے۔ یہ ہے کہ مرزاقادیانی پر ایسے الہامات ہوئے جو خود ان کے فہم میں نہیں آئے۔ حالانکہ میرے علم ویقین کے مطابق دنیا میں