واضح رہے کہ یہود ایک سے زیادہ پیغمبروں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں۔ مسیح کی موت کے ثبوت میں ایسے سوال کرنا کہ وہ کھاتے کیا ہیں۔ پاخانہ کہاں پھرتے ہیں۔ جہالت کی علامت ہے۔ اﷲتعالیٰ یہ کر سکتا ہے کہ وہ انہیں زندہ رکھے اور خوراک یا حوائج ضروری سے مستغنی کر کے زندہ رکھے۔
یہ کہنا کہ ہر شخص کے لئے موت کا مزہ چکھنا لازم ہے۔ لہٰذا مسیح مرگئے۔ ایک بودی دلیل ہے۔ اس لئے کہ ہر ایک کی میعاد حیات مقرر ہے اور یہ کوئی نہیں کہتا کہ مسیح کبھی بھی فوت نہیںہوںگے۔ غرض حیات مسیح ابتداء سے مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے اور ایسے لوگ مرزاقادیانی سے بہت پہلے موجود تھے۔ جو مسیح کی موت کے قائل تھے اور جن میں سرسید کا نام بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جیسے کہ میں عرض کرچکا ہوں۔ حیات وممات مسیح کے متعلق ہر مسلمان مطالعہ کے بعد اپنی دیانتدارانہ رائے قائم کرنے میں آزاد ہے۔ اس کی یہ رائے نہ اس کو کافر بناسکتی ہے نہ مؤمن۔ لہٰذا ایسے مسئلہ کے تصفیہ کے لئے ایک نبی کی بعثت قطعاً غیر ضروری تھی۔
یاد رہے کہ خود قادیانی حضرات تسلیم کرتے ہیں کہ حیات مسیح کا مسئلہ جزو ایمان نہیں۔ ان حالات میں مرزاقادیانی کا صرف اس مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے مبعوث ہونا خارج از بحث ہے اور اس کے علاوہ مرزاقادیانی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا۔ جو ان کی بعثت کا مقصد قرار دیا جائے۔ اگر کوئی ہے تو مجھے اس کے سننے سے مسرت حاصل ہوگی۔
قسط بست وششم (۲۶)
میری رائے یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے ان مسائل میں پڑ کر اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی اور نہ انہوں نے کوئی نئی بات ہی پیدا کی۔ البتہ ایسے مسائل کو مرزاقادیانی کے وقت سے پہلے یہ اہمیت حاصل نہ تھی کہ لوگ ان کی وجہ سے آپس میں لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ شائع کرتے۔ مرزاقادیانی نے ان فروعی مسائل کو غیر معمولی اہمیت دے کر ملت مرحومہ میں افتراق پیدا کیا اور فتنہ وفساد کے دروازے کھول دئیے۔
اور فرض کر لیجئے کہ مسیح زندہ ہیں۔ ان حالات میں اس مسئلہ پر اعتراض کیا وارد ہوسکتا ہے کوئی نہیں۔ اصل میںمعراج جسمانی وروحانی، ولادت مسیح اور وفات عیسیٰ علیہ السلام میں اختلاف خدائے قدوس کی قدرت کے محدود وغیر محدود ہونے کا اختلاف ہے اور یہ بحث معجزہ کے امکان اور عدم امکان سے تعلق رکھتی ہے۔