حضورﷺ کی شان فضیلت اغیار کی زبان وقلم سے
مشہور ومعروف مؤرخ ڈبلیو آئررنگ جن کا ایک ایک لفظ علمی دنیا میں قدروعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جن کی مؤرخانہ تحقیق کا پایہ اس قدر بلند ہے کہ آپ کی تحریریں بطور سند کے پیش کی جاتی ہیں۔ تحریر فرماتے ہیں۔
’’حضرت محمد صاحب نہایت سادہ مزاج ریفارمر تھے۔ آپ کی ذہنی قابلیت حیرت انگیز اور قوت مدبرہ غیر معمولی تھی۔ آپ کا فہم وادراک نہایت تیز حافظہ زبردست اور مزاج انکسار پسند تھا۔ آپ کی گفتگو نہایت مختصر مگر پرمغز اور سنجیدہ ہوتی تھی۔ حبیب کی حلاوت آپ کی بینظیر فصاحت اور مترنم لہجہ سے دوبالا ہوجاتی تھی۔ آپ بڑے متقی اور نیک منش تھے۔ اکثر روزہ سے رہتے تھے۔ ظاہری شان وشوکت کا کچھ خیال نہ تھا۔ جیسا کہ نچلے طبقہ کے لوگوں میں ہوا کرتا ہے۔ بلکہ جو کپڑے آپ پہنتے ان میں اکثر پیوند ہوتے۔ صفائی کا بہت خیال رکھتے۔ اکثر غسل کرتے اور خوشبو لگاتے۔ معاملات میں بڑے منصف تھے۔ آپ بیگانے غریب امیر غلام اور آقا سب کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کرتے۔ عام لوگوں کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آتے اور ان کی شکایات سنتے تھے۔ طبیعت پر اس قدر قابو یافتہ تھے کہ خانگی زندگی میں بھی نہایت متحمل، بردبار اور ذی حوصلہ تھے۔ آپ کے خادم انس کا بیان ہے کہ میں آٹھ برس تک آپ کی خدمت میں رہا۔ اس عرصہ میں آپ نہ تو کبھی مجھ پر ناراض ہوئے اور نہ ہی سخت کلامی کی۔ باوجودیکہ مجھ سے نقصان بھی ہوجاتا تھا۔ آپ کے سوانح حیات کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بالکل خودغرض نہ تھے۔ کیونکہ ملکی فتوحات سے جوحاکمانہ غرور اور خود غرض لوگوں میں پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ آپ میں بالکل نہ تھا۔ بلکہ نہایت عروج اور شاہانہ صولت وسطوت کی موجودگی میں بھی آپ ایسے ہی سادہ اور غریبانہ حالت میں رہے۔ جیسے کہ افلاس کے زمانہ میں شاہانہ شان وشوکت تو درکنار۔ اگر آپ کہیں تشریف لے جاتے اور لوگ تعظیماً کھڑے ہوجاتے تو بھی آپ ناپسند فرماتے۔ مال ودولت جو خراج سلطنت جزیہ اور مال غنیمت سے حاصل ہوتا وہ صرف جنگی مہمات اور امداد مساکین میں صرف ہوتا تھا اور یہی مصارف اس قدر تھے کہ بیت المال ہمیشہ خالی رہتا تھا۔ عمر بن حارث کا قول ہے کہ حضرت محمدﷺ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی لونڈی، غلام چھوڑا نہ درہم اور دینار۔ آپ کو دنیاوی آسائش وآرام سے کوئی غرض نہ تھی۔ آپ ہمیشہ نماز میں مصروف رہا کرتے جو مسلمانوں کی نہایت پسندیدہ عبادت اور روح انسانی کو صاف وشفاف بنانے والی چیز ہے۔ آپ ہمت شکن