تبصرہ نامی پمفلٹ میں قادیانی ایڈووکیٹ منظور نے قادیانیوں کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید فرمایا ہے کہ آزاد کشمیر کا پہلا صدر انور نامی ایک احمدی تھا۔ جس کا اصل نام غلام علی گلکار تھا۔ اس انکشاف کے بعد ایڈووکیٹ صاحب خاموش ہیں۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ ان گلکار صاحب کی گلکاریاں کب تک رہیں؟ اور ان کی حکومت قائم نہ رہ سکنے کی وجوہات کیا تھیں؟
امر واقعہ یہ ہے کہ ۴؍اکتوبر کو ریاست کشمیر میں جماعت احمدیہ کے صدر خواجہ غلام نبی گلکار آزاد کشمیر حکومت کے پہلے صدر رہے۔ لیکن ۲۴؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو ان کی حکومت دم توڑ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آزاد علاقے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھی ایک انڈر گراؤنڈ قادیانی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ غلام نبی گلکار نے اس انڈر گراؤنڈ حکومت کے جن عہدیداروں کا اعلان کیا۔ ان کی اکثریت جماعت احمدیہ کے عقائد سے تعلق رکھتی تھی۔
(شیر کشمیر شیخ محمد عبداﷲ، کلیم اختر ص۱۴۳)
جموں کشمیر آزاد حکومت
یہی وجہ ہے کہ تحریک کشمیر کے دیگر مسلمان راہنما ان گلکار صاحب کو سرے سے صدر ہی تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ سردار محمد ابراہیم خاں لکھتے ہیں۔ ’’۲۴؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو جموں وکشمیر کی پہلی آزاد حکومت کا قیام عمل میں لایاگیا اورہمارے دریائے جہلم کے قریب پونچھ کے جنوب میں پلندری کے مقام پر آزاد حکومت کا صدر مقام قائم کیاگیا۔ راقم الحروف کو اس حکومت کا بلا مقابلہ صدر منتخب کیاگیا۔‘‘ (کشمیر کی جنگ آزادی ص۱۵۹)
قادیانیوں کی ان ’’شاندار خدمات‘‘ کا تذکرہ کرنے کے بعد ایڈووکیٹ صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’یہ قرارداد پاکستان کے استحکام کے خلاف بھی ایک سازش ہے۔ کیونکہ صاف نظر آرہا ہے کہ محرکین کا آخری مقصود یہ ہے کہ اس تحریک کو آزاد کشمیر سے شروع کر کے پاکستان کے تمام علاقوں میں پھیلا دیا جائے اور فتنہ وفساد کا ایک بازار گرم کردیا جائے۔‘‘ (ص۱۲،۱۳)
۱۹۵۳ء کے واقعات
اسی خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے مرزاناصر احمدقادیانی نے ۱۹۵۳ء کے فسادات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت حکومت قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ مان لیتی تو نہ فتنہ وفساد ہوتا۔ نہ قتل وغارت کا بازار گرم ہوتا۔ نہ ہنگاموں کی فضا پیدا ہوتی۔ حکومت نے خود ہنگامہ کھڑا کیا اور تشدد کے کوڑے سے اس آگ کو ہوادی۔ اس کے برعکس آزاد کشمیر میں یہ قرارداد پاس ہوئی۔ نہ کوئی فتنہ وفساد ہوا اور نہ ہنگاموں نے سلطنت کے امن وسکون کو