ومحبت کی سمتیں بھی ازسرنو متعین ہوں اور ایک ایسا متوازی نظام تجویز کیا جائے جو بتدریج اثرات ونتائج کے اعتبار سے اسلام کا حریف اور مدمقابل ثابت ہوسکے۔
ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ یہ سازش کامیاب رہی۔ اسلامی تاریخ کا معمولی طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں پر جوجو آفتیں آئیں۔ ان کی تہ میں یہی تصور کارفرماتھا جس کو مجوسیت اور یہودیت نے پیدا کیا۔ اس سازشی گروہ کے سامنے دشواری یہ تھی کہ اگر یہ اسلام کے اسی ڈھانچے کو قائم رہنے دیتے ہیں۔ جس کو آنحضرتﷺ نے پیش کیا اور عقیدت ومحبت کے دائروں کو نبوت تک محدود رکھتے ہیں اور ماتھوں کو دوسرے آستانوں پر نہیں جھکاتے تو اس سے یہ خدشہ لاحق ہے کہ مخالفت وعناد کی وہ فضا بگڑتی ہے جس کی تلخیوں میں عمداً اضافہ کیاگیا۔ اس لئے نبوت کے مقابلہ میں امامت کو لامحالہ لانا پڑا۔ آپ اگر شیعہ کتب وروایات کا مطالعہ کریںگے تو ایک چیز جو آپ کی توجہ کو اس طرف موڑے گی وہ یہ ہوگی کہ یہاں خدا اور رسول کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہے جو آئمہ کو ہے۔ یہاں فضائل ومناقب اور معجزات وکرامات اور اختیارات وعلوم کی فراوانیاں کچھ اس طرح کی سی ہیں۔ نبوت ورسالت کی کور کو بہر آئینہ دبتی ہوئی نظر آئے گی اور یوں معلوم ہوگا کہ امام حسینؓ اور ائمہ اہل بیت کے مقابلہ میں معاذ اﷲ! یہ دوسرے درجے پر ہیں۔ اسی لٹریچر کا اثر ہے کہ ایک شیعہ نفسیاتی طور پر مجبور ہے کہ وہ محبت ووابستگی اور لگاؤ اور تعلق خاطر کی ہر ہر کیفیت کو صرف آئمہ اہل بیت تک محصور رکھے اور اس حقیقت کو نہ سمجھے کہ اصل میں مقصود بالذات تو اسلام ہے اور یہ وہ کسوٹی اور معیار ہے جس کی نسبت سے فضائل ومناقب کی قدریں متعین ہوتی ہیں۔ یعنی اسلام میں اطاعت وعقیدت کے لئے ایک اصول متعین ہے جس کی رعایت بہرآئینہ ضروری ہے۔
فرق مراتب
یہ اصول فرق مراتب کا ہے۔ اس میں جو شئے محبت وعقیدت کے لائق ہے وہ خود اﷲتعالیٰ کی ذات بے ہمتا ہے۔ ’’والذین اٰمنوا اشد حباﷲ‘‘ {اور وہ لوگ جو مؤمن ہیں وہ اﷲ کو زیادہ چاہتے ہیں۔}
پھر دوسرے درجہ پر محبت وعقیدت کا محور آنحضرتﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے۔ ’’قل ان کنتم تحبون اﷲ فاتبعونی یحببکم اﷲ‘‘ {اے رسول کہہ دو کہ اگر تمہیں واقعی اﷲ سے محبت ہے تو میری پیروی اختیار کرو۔ اس پر خود اﷲ تمہیں چاہنے لگے گا۔}
تیسرے درجہ پر صحابہؓ اور آئمہ اہل بیتؓ ہیں۔ جن میں پھر ایک ترتیب ہے۔