لیا جائے۔ حالانکہ وہ پرانا احمدی تھا۔‘‘ (الفضل قادیان ج۲۶، ش۲۰۰ ص۷، مورخہ ۳۱؍اگست ۱۹۳۸ئ)
’’سب سے بڑا اعتراض جو اس نے (ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب) نے مسیح موعود پر کیا۔ وہ مال کے متعلق تھا کہ لوگوں سے روپیہ لیتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں۔ کوئی حساب نہیں۔‘‘ (اخبار الفضل قادیان ج۸ ش۵۴ ص۷، مورخہ ۲۰؍جنوری ۱۹۲۱ئ)
خود غرضی
کوئی بھی مذہبی رہنما خود غرضی کا شکار نہیں ہوتا۔ اگر وہ خود غرضی کا شکار ہے تو پھر وہ مذہبی رہنما تو کجا ایک عام دنیا دار قسم کا معزز آدمی بھی نہیں۔ مرزاقادیانی کی پوری زندگی خود غرضیوں کے اسی تانے بانے سے بنی ہوئی ہے۔ ان کے دل کی خواہشات ان کی زبان سے اور ان کے قلم کی تراوش سے باربار ٹپکتی ہیں۔ وہ انگریز سے اپنی خدمات کا صلہ مانگتے ہیں۔ وہ اپنے مریدوں سے نذرانہ طلب کرتے ہیں اور وہ امیروں کو بڑے بڑے عاجزانہ خط لکھتے ہیں۔ مکتوبات احمدیہ کے نام سے مرزا قادیانی کے خطوط کا جو مجموعہ شائع ہوا ہے۔ اس میں ایک سو سے زائد خطوط ایسے ہیں جن میں مخاطب کوئی نہ کوئی امیر آدمی ہے۔ جسے آپ نے چندہ بھیجنے کی بابت لکھا ہے یا چندہ پہنچنے پر شکریہ کا خط لکھا ہے کہ آپ کا چندہ ملا اور مجھے بذریعہ الہام بتایاگیا ہے کہ آپ کا جنت میں مقام طے کرلیا گیا ہے۔ نذرانہ طلب کرنے کی صرف ایک مثال ملاحظہ کریں: ’’۱۹۰۸ء کا واقعہ ہے کہ ضلع کانپور کے ایک رئیس ولی محمد نامی جو ایک عرصہ سے احمدی ہوچکے تھے اپنے بیمار بیٹے کی صحت کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں خطوط لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے حضور کو لکھا کہ میں مدت سے دعا کرارہا ہوں مگر اب تک بیٹے کے حق میں دعا قبول نہیں ہوئی…… ولی محمد صاحب کے خط کے ساتھ ہی اسی جگہ کے ایک احمدی یوسف علی صاحب کا خط بھی اسی مضمون کا آیا ہے۔ اس رئیس کے بیٹے کو اب تک صحت نہیں ہوئی اور مخالف طعن کرتے ہیں۔ ہر دو خطوط کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جواب لکھ دیں کہ اگر وہ رئیس ایسا ہی بے دل ہے تو چاہئے کہ اس سلسلہ کی تائید میں کوئی بھاری نذرانہ مقرر کے جو اس کی انتہائی طاقت کے برابر ہو اور اس سے اطلاع دے اور یاد دلاتا رہے۔‘‘
(مفتی محمدصادق قادیان ۲۰،اکتوبر۱۹۳۷ئ)