سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ ہمیں مرزائیوں کے سامنے اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تاہم حکومت پاکستان کو مسلمانان پاکستان یہ واضح طور پر بتا دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اگر مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ غداری ہے تو پاکستان کے کروڑوں مسلمان پھر اس غداری کو قبول کرتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کو سبوتاژ کرنے کی بات وہ طبقہ کر رہا ہے جس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر نے جنم لیا۔ جنہوں نے ہر موقع پر تحریک کو سبوتاژ کیا اور جو تقسیم کے بعد ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ کرتے رہے۔
قصہ کشمیرکمیٹی
اس پمفلٹ میں ایڈووکیٹ صاحب نے اپنی جماعت کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر ۱۹۳۱ء کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ کشمیر کمیٹی میں اکابرین مسلمانان ہندشامل تھے اور اس کی قیادت امام جماعت احمدیہ نے کی۔
کشمیر کمیٹی کا قیام اور تحریک آزادی کشمیر میں قادیانیوں کی شمولیت کا پس منظر یہ تھاکہ اس زمانے میں ایشیائ، انگلستان اور روس کی باہمی جنگ وجدل کا میدان بنا ہوا تھا۔ انیسویں صدی کے اوائل سے روس نے توسیع پسندی کی جس پالیسی پر عمل کرنا شروع کیا۔ اس نے برطانوی اقتدار کے لئے خطرے کی یہ گھنٹی بجادی کہ اب روس افغانستان اور کشمیر کے راستے ہندوستان میں داخل ہو جائے گا۔ اس کا تذکرہ جوزف کوبل کی کتاب Danger Of Kashmir میں موجود ہے۔ برطانوی حکومت نے اپنی حکومت کے استحکام کے لئے ضروری سمجھا کہ وہ شمال مغربی ہند کے ان تمام علاقوں کو براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لے۔ جہاں اشتراکی سرگرمیاں جاری تھیں اور جہاں سے روس کے لئے مداخلت کے راستے موجود تھے اور ان سرحدی علاقوں میں ایسی وفادار جماعتوں کو پالا جائے جو ایک طرف آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کرسکیں اور دوسری طرف برطانوی حکومت کے لئے مخبری کے فرائض انجام دیں۔ ان علاقوں کو براہ راست اپنے کنٹرول میں لینے کی راہ میں معاہدہ امرتسر رکاوٹ تھا۔ جس کے تحت مہاراجہ کی رضامندی ضروری تھی اور مہاراجہ اپنی ریاست سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے۔ چنانچہ اس کی نگاہ قادیانی جماعت پر پڑی جس کو خود انگریز نے جنم دیا تھا اور جس کی وفاداریوں کا بارہا تجربہ کرچکا تھا۔ چنانچہ قادیانی جماعت جس نے پہلے کسی بھی تحریک میں حصہ نہ لیا تھا اور انگریزی حکومت کی وفادار ترین جماعت یہی تھی۔