مرزاقادیانی نے اپنے بیٹے فضل احمد کا جنازہ محض اس لئے نہیں پڑھا کہ وہ غیر احمدی تھا۔‘‘
(اخبار الفضل ج۲ ش۱۳۶ ص۷، مورخہ۶؍مئی ۱۹۱۵ئ)
اسی اخبار الفضل میں درج ہے۔ ’’اگر یہ کہا جائے کہ کسی ایسی جگہ جہاں تک تبلیغ نہیں پہنچی کوئی مراہوا ہو اور اس کے مرچکنے کے بعد وہاں کوئی احمدی پہنچے تو وہ جنازہ کے متعلق کیا کرے۔ اس کے متعلق یہ ہے کہ ہم تو ظاہر پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ چونکہ وہ ایسی حالت میں مراہے کہ خداتعالیٰ کے رسول اﷲ اور نبی کی پہچان اسے نصیب نہیں ہوئی۔ اس لئے ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھیںگے۔‘‘ (الفضل ج۲ ش۱۳۶ ص۸، مورخہ ۶؍مئی۱۹۱۵ئ)
ایک صاحب نے عرض کیا کہ غیر احمدی کے بچے کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے۔ وہ تو معصوم ہوتا ہے اورکیا یہ ممکن نہیں وہ بچہ جوان ہوکر احمدی ہوتا۔
’’اس کے متعلق (میاںمحمود احمد خلیفہ قادیان) نے فرمایا جس طرح عیسائی بچے کا جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا۔ اگرچہ وہ معصوم ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک غیر احمدی کے بچے کا بھی جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا۔‘‘ (مندرجہ اخبار الفضل ج۱۰ ش۳۲، ص۷، مورخہ ۲۳؍اکتوبر ۱۹۲۲ئ)
’’تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ایک لڑکا پڑھتا ہے۔ چراغ دین نام حال میں جب وہ اپنے وطن سیالکوٹ گیا تو اس کی والدہ صاحبہ فوت ہوگئیں۔ متوفیہ کو اپنے نوجوان بچے سے بہت محبت تھی۔ مگر سلسلے میں داخل نہ تھیں۔ اس لئے چراغ الدین نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔ اپنے اصول اور مذہب پر قائم رہا۔ شاباش اے تعلیم الاسلام کے غیور فرزند کہ قوم کو اس وقت تجھ سے غیور بچوں کی ضرورت ہے۔‘‘ زندہ باش! (اخبار الفضل قادیان، ۲۰،اپریل۱۹۱۵ئ،ج۲ش۱۲۹ص۱)
حضرت قائداعظم کا جنازہ
یہ بات تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ چوہدری ظفراﷲ خان سابق وزیر خارجہ پاکستان حضرت قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوا اور الگ بیٹھا رہا۔ جب اس سے اس سلسلے میں استفسار کیا گیا تو اس نے کہا: ’’یوں سمجھ لیجئے کہ میں ایک غیر مسلم ملک کا مسلمان وزیر ہوں۔‘‘ (بحوالہ اداریہ روزنامہ مشرق ۱۵فروری۱۹۶۴ئ)
اس کے اس جواب پر جب اسلامی اخبارات میں احتجاج کیا گیا تو جماعت احمدیہ کی طرف سے جواب دیاگیا: ’’جناب چوہدری ظفراﷲ خان پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا۔ تمام دنیا جانتی ہے کہ قائداعظم احمدی نہ تھے۔ لہٰذا جماعت احمدیہ