العلیم‘‘ {اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی تحریک تمہیں محسوس ہوتو اﷲ سے پناہ مانگو۔ وہ یقینا سننے والا اور تمہاری فطری کمزوریوں کو جاننے والا ہے۔}
عصمت آئمہ کا عقیدہ کیونکر پیدا ہوا
ان حالات میں عصمت ائمہ کا عقیدہ حضرات شیعہ میں کیونکر پیدا ہوا۔ جب کہ اس کے لئے کتاب اﷲ وسنت رسول اﷲ میں کوئی نص موجود نہیں اور جب کہ یہ عقیدہ خلاف عقل بھی ہے۔ اس کا جواب معلوم کرنے کے لئے اوّلاً اس تاریخی پچھواڑ اور بیک گراؤنڈ پر غور کرنا چاہئے۔ جس نے اس عقیدہ کے لئے راہیں ہموار کیں۔ یہ ظاہر ہے خلافت راشدہ تک شیعی اختلاف کی نوعیت غیر سیاسی تھی۔ حضرت علیؓ دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے تھے کہ بربنائے قرابت داری، خلافت کا حق آنحضرتﷺ کے بعد انہیں کو پہنچتا ہے۔ دیگر صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کا مزاج شورائی ہے۔
’’وشاورہم فی الامر‘‘ {اور آپ معاملات میں مشورہ کرلیا کیجئے۔}
اس لئے خلیفہ وہ قرار پائے گا۔ جس پر صحابہؓ کی معتدبہ جماعت جمع ہوگی۔ حضرت علیؓ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا۔ کیونکہ وہ خوب جانتے تھے کہ یہ محض ایک تعبیر ہے اور اس کی دوسری تعبیر وہ ہے جو ان کے علاوہ جلیل القدر صحابہؓ نے اختیار کی۔
حضرت علیؓ کے بعد بنی امیہ کے دور میں اس سیاسی اختلاف نے بالکل دوسرا ڈھنگ اختیار کیا۔ اب تک روزمرہ کی عملی زندگی پر اس اختلاف کی کوئی پرچھائیں نہ پڑیں تھیں۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور ان کے اتباع اسی انداز سے نمازیں پڑھتے تھے۔ جس طرح دوسرے صحابہؓ، اسی طرح روزے رکھتے تھے۔ جس طرح دیگر صحابہؓ۔ یعنی زندگی کے تمام ظہورات میں ان کا اسلام عامتہ المسلمین کے اسلام سے کسی طرح مختلف نہیں تھا۔ مگر جب یہ تلخیاں بنو امیہ کی بیہودگیوں کی وجہ سے بہت زیادہ بڑھیں تو شیعیت میں بھی ردعمل کے طور پر شدید عصبیت پیدا ہوئی۔
شیعیت اسلام کے خلاف ایک سازش کا نام ہے
تاریخ کے اس موڑ پر ایران کی مغلوب مجوسیت اور کچلی ہوئی یہودیت میں سازش ہوئی اور یہ طے کیاگیا کہ اسلام سے اس کے غلبہ وتفوق کا انتقام لینا اس طرح ممکن ہے کہ آپس کے اس اختلاف کو اپنایا جائے۔ اس میں اپنا مخصوص عقیدہ اور روح داخل کی جائے اور اس کو ایسی شکل میں ڈھالا جائے کہ بظاہر یہ اسلام کا ایک فرقہ ہی رہے۔ مگر اسلام کی کوئی ادا اور اسلام کا کوئی حسن اس میں باقی نہ رہے۔ یعنی اس کے عقیدوں کے محوریک قلم بدل دئیے جائیں۔ اس میں اطاعت