متعلقات ایک نئے زاویۂ نظر سے ضبط تحریر میں آہی جائیں۔ پھر خدا جانے اس کا موقع ملے یا نہ ملے۔ کیونکہ غوروفکر کے ہدف ومعیار اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ بہت ممکن ہے۔ آئندہ مذہب پر اظہار خیال ہی دقیانوسیت سے تعبیر ہو۔ سب سے بڑا مسئلہ جو اس خصوص میں فیصلہ کن ہوسکتا ہے۔ ختم نبوت ہے۔ اگر یہ حقیقت ثابتہ معرض بحث سے نکل کر پھر حقیقت کی حیثیت اختیار کر لے اور اس کے تمام متعلقہ گوشے وضاحت سے سامنے آجائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مفید علمی کوشش ہوگی۔
نئی بات کہنا مشکل ہے
جہاں تک نفس دلائل کا تعلق ہے۔ باوصف تحقیق اس باب میں کوئی نئی بات اور بالکل اچھوتی بات ڈھونڈ لانا کہ: ’’لم یطمثھن انس قبلہم ولا جان‘‘ مشکل ہے۔ کیونکہ جب سے جھوٹے مدعیان نبوت نے سراٹھایا ہے۔ علماء حق نے برابر ان کی تردید کے لئے ان مباحث کی چھان بین کی ہے اور شاید ہی کوئی گوشہ ایسا چھوڑا ہو جو آنے والوں کے لئے موضوع فکر ہوسکے۔ لیکن صرف دلائل ہی سب کچھ نہیں ہوتے۔ بعض اوقات ان کو قرینے سے پیش کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایک ہی حقیقت باوجود باربار زیر نظر ہونے کے بسااوقات ذہن سے اوجھل رہتی ہے اور پھر سلیقے کے ایک ہی اشارہ سے سہوومدہوشی کا سارا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔
قرآن حکیم کے دلائل پر کبھی لکھنے کا موقع ملا تو اس کی اس خوبی پر کھل کر بحث کی جاسکے گی کہ آیات وشواہد کے پیش کرنے میں یہ کن کن اداؤں میں دوسروں سے ممتاز ہے۔ یہاں صرف اتنا یاد رکھئے کہ وہ کوئی انوکھی اور جدید بات لے کر نہیں آیا۔ نئے نئے دلائل کی خلاقی وتکوین اس کا ہرگز منصب نہیں۔ وہ تو انہیں حقیقتوں کو جو ہمارے گردوپیش پھیلی ہوتی ہیں اور جن پر کبھی نگاہ اعتبار نہیں پڑتی اور اگر پڑتی ہے تو غوروفکر کے لئے نہیں رکتی۔ اس ڈھنگ سے پیش کرتا ہے کہ ذہن کی تمام صلاحتیں خودبخود انہیں حقیقتوں پر مرکوز ہو جاتی ہیں اور اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ان کے لئے نہیں رہتا کہ یاتو ایک دم جھٹلائیں اور یا پھر ان کی تصدیق کریں یہ انداز اور یہ ڈھب حقیقی شے ہے۔
بیچ کے کچھ زینے
یوں سمجھئے کہ فکر سے پہلے اصابت فکر کا مرتبہ ہے۔ سوچنا اور بات ہے اور صحیح سوچنا اور بات۔ بسااوقات ایک مسئلہ پر ہم گھنٹوں بحث کرتے ہیں۔ علم منطق کے تمام حربے استعمال میں