میں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور کچھ نہیں کہا کہ میں محدث ہوں اور اﷲتعالی مجھ سے اسی طرح کلام کرتا ہے۔ جس طرح محدثین سے۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۶)
’’ان لوگوں نے میرے قول کو نہیں سمجھا بلکہ یہی کہا کہ یہ شخص نبوت کا مدعی ہے اور اﷲ جانتا ہے کہ ان کا یہ قول صریح کذب ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے یہ کہا ہے کہ محدث میں تمام اجزائے نبوت پائے جاتے ہیں۔ لیکن بالقوۃ نہ بالفعل۔ پس محدث بالقوہ نبی ہے اور اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہوتا تو وہ بھی بالفعل نبی ہوتا۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ ص۸۱، خزائن ج۷ ص۳۰۰)
’’میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں۔ یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرے وہ نبی بھی ہوجاتا ہے۔‘‘
(جنگ مقدس ص۷۴، خزائن ج۶ ص۱۵۶)
’’ہمارے سید رسول اﷲﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرتﷺ کوئی نبی نہیں آسکتا۔ اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے گئے ہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۲۷، خزائن ج۶ ص۳۲۴)
قسط دہم
القصہ انکار وادعائے نبوت کے متعلق مرزاقادیانی کی تحریریں دیکھ کر انسان انگشت بدندان ہوکر پکار اٹھتا ہے کہ ؎
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست
لیکن برادران قادیان لوگوں کو یہ کہہ کر بہلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی شریعت کے بغیر نبی مبعوث ہوئے۔ ایسا نبی ظلی اور بروزی نبی ہوتا ہے۔ اس کو محدث کہتے ہیں اور محدث اور مجدد نبی ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تحریک قادیان کا یہ جزو مسیحی حضرات کے تین میں ایک اور ایک میں تین خداؤں کے اصول سے کچھ کم تر معمہ نہیں۔ جو لوگ صریح واضح اور پیچ وخم سے مبرا دین مبین کی موجودگی میں ایسے گورکھ دہندوں میں الجھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی جدت اور وقت پسندی انہیں مبارک ہو۔ لیکن اس خیال سے کہ دنیا پر واضح ہو جائے کہ مرزاقادیانی کا بروزی یا ظلی نبی ہونے کا دعویٰ ادعائے نبوت کی تلخ گولی پر شکر کا ایک پردہ تھا۔ جس سے مدعا یہ تھا کہ لوگ ادعائے نبوت کی ناخوشگوار گولی کو نگل لیں اور بس۔ میں مرزاقادیانی کی تقریروں سے یہ واضح کرنے کی کوشش کروںگا کہ وہ اپنی شان ایسی بتاگئے ہیں جو بروزی وظلی نبی تو ایک طرف رہے۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے بھی بالا تر ہے اور خود سردار امی لقب صلوٰۃ اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے بھی کسی طرح کہتر نہیں۔