ہے۔ مرزاقادیانی خدا کی وحی میں بھی فرق نہ کر سکے کہ یہ وحی ولایت ہے یا وحی نبوت۔ کیونکہ ۱۹۰۱ء سے پہلے وہ اپنی وحی کو وحی ولایت ہی کہتے رہے۔ (برکات الدعاء ص۲۶، خزائن ج۶ ص ایضاً)
مگر بعد میں وہی وحی وحی نبوت نکلی۔ گویا مرزاغلام احمد قادیانی نہ خدا کے قول کو سمجھے نہ فعل کو۔ مرزاقادیانی کے معیار مقرر کردہ کے مطابق مرزاقادیانی محدث نے محدث کادعویٰ کرنے میں بھی دھوکا کھایا اور مرزاقادیانی نبی ورسول نے نبوت ورسالت کا دعویٰ کرنے میں بھی دھوکا کھایا نہ آپ کو حقیقت محدث دکھائی گئی اور نہ ہی آپ کو حقیقت نبوت قریب سے اور باربار دکھائی گئی۔ بلکہ دکھائی ہی نہیں گئی اور نہ ہی آپ نے وحی ولایت کو دیکھا۔ نہ وحی نبوت کو۔ غرضیکہ مسیح کی نسبت جو اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ خداتعالیٰ مسیح کو تورات اور انجیل سکھلائے گا تو اس میں یہی مصلحت ربانی تھی کہ تامسیح جو اﷲتعالیٰ کا سچا رسول ہے۔ کتاب اﷲ کی تفہیم میں دوسروں کا محتاج نہ رہے اور اپنے تناقص کلام اور عقیدہ میں تبدیلی کرنے سے لوگوں کی نظروں میں اپنی نبوت ورسالت کومشتبہ نہ کردے اور اﷲتعالیٰ اپنے تمام انبیاء کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتاہے اور یہ اﷲتعالیٰ کے نبیوں کی صداقت کا ایک معیار ہے۔
الکتاب والحکمت کے معنی
اب ہم اپنے اصل مطلب کی طرف عود کرتے ہیں۔ یعنی ’’الکتاب والحکمۃ‘‘ کے معانی پر غور کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں ’’الکتاب والحکمۃ‘‘ اکٹھا آیا ہے۔ وہاں اس سے مراد قرآن اور بیان قرآن یعنی تفہیم قرآن یا تفسیر قرآن وغیرہ ہے۔ فرمایا اﷲتعالیٰ نے۔
۱… ’’ربنا وابعث فیہم رسولاً منہم یتلواعلیہم اٰیتک ویعلمہم الکتاب والحکمۃ (البقرۃ:۱۲۹)‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء ہے کہ یا رب مکے والوں میں رسول پیدا کر جو ان کو الکتاب والحکمۃ سکھلائے۔ مکہ میں جناب خاتم النبیینﷺ مبعوث ہوئے اور آپؐ نے جو کچھ امت کو سکھلایا وہ الکتاب والحکمۃ ہے۔
۲… ’’کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم یتلواعلیکم اٰیتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمۃ (البقرۃ:۱۵۱)‘‘
۳… ’’واذکر وانعمت اﷲ علیکم وما انزل علیکم من الکتاب