ایسے اور بہت سے نام پیش کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن میں مندرجہ بالا مثالوں کو اپنے مقصود کے لئے کافی سمجھتا ہوں۔
قسط دوم
دعویداران مسیحیت ومہدویت کی جماعت کثیر میں سے صرف تین اشخاص کے حالات اس لئے اوپر درج کئے گئے ہیں کہ مسلمانوں کی موجودہ مفلوک الحالی کے مقابلہ میں علم برداران تحریک قادیان کی ثروت ووجاہت وتمکنت بھی ان کی صداقت کی ایک دلیل سی بن گئی ہے۔ اس کا ازالہ ہوسکے اس لئے کہ جن مدعیان نبوت کا مختصر حال اس سلسلہ میں بیان کیاگیا ہے ان کی شوکت ثروت وتمکنت اور ان کا جاہ وجلال قادیان سے لاکھوں گنا بڑھا ہوا تھا۔ وہ صاحب تخت وتاج وحامل شمشیر وعلم ہوگذرے ہیں۔ لہٰذاظاہری شان وشوکت سے مرعوب ہونا درست نہیں۔ اس کو خداوند کردگار نے اپنے کلام میں ’’متاع قلیل‘‘ کا نام دیا ہے۔ لہٰذا اس سے مرعوب ہونا دانشمندی سے بعید ہے۔
تاہم اس سے مرزاقادیانی کے دعاوی کی تکذیب نہیں ہوتی۔ اس کے لئے زیادہ وزنی دلائل کی ضرورت ہے۔ میں جن دلائل کی بنا پر تحریک قادیان سے اتفاق نہیں کرسکتا وہ ملاحظہ فرمائیے۔
پہلی دلیل
قرآن مجید فرقان حمید کے ماننے والوں کو اس حقیقت پر ناز ہے اور اس بات پر مسلمان بجاطور پر فخرومباہات کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا میں الہامی کتابوں کے ماننے والوں میں صرف مسلمان ہی ایسے ہیں جن کا ایمان ایک ایسی کتاب پر ہے جس میں کوئی تبدیلی نہ اب تک ہوئی ہے نہ آئندہ ہوگی اور نہ ہوسکتی ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ جس طرح سے اس کتاب کا مصنف لاشریک وبے مثال ہے۔ اسی طرح یہ کتاب بھی بے عدیل وبے نظیر ہے اور اس کتاب مقدس کے مقابلہ میں بھی کوئی اور کتاب تصنیف نہیں ہوسکتی۔ پوری کتاب تو بڑی بات ہے قرآن پاک کا اپنا دعویٰ ہے کہ اس کی سورتوں کی طرح کی ایک سورۃ بھی کوئی لکھ نہیں سکتا۔ خواہ لکھنے والا ایک ہو یا دنیا جہاں کے تمام عالم وفاضل وعام انسان وحیوان، فرشتے، دیوی اور دیوتا جمع ہوکر بھی ایسی کوشش کیوں نہ کریں۔ اسلام دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس کو غلط ثابت کرنے کے لئے امریکہ اور یورپ کے قارونوں کا روپیہ پانی کی طرح بہ چکا اور پادریوں نے کوئی کوشش اٹھا نہ رکھی۔ مگر اس کی ایک للکار کا جوب نہ دے سکے۔ وہ للکار کیا ہے۔ ’’ان کنتم فی ریب مما