سے قابل اعتراض ہے اور پھر چپ رہیں اور میں مجمع عام میں اس کا جواب دوںگا۔ جیسا کہ مفصل لکھ چکا ہوں۔ پھر دوسرے دن اسی طرح دوسری لکھ کر پیش کریں تو میری طرف سے خداتعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس سے باہر نہیں جاؤںگا اور کوئی زبانی بات نہیں سنوںگا اور آپ کی مجال نہیں ہوگی کہ ایک کلمہ بھی زبانی بول سکیں اور آپ کو بھی خداتعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ اگر سچے دل سے آئے ہیں تو اس کے پابند ہوجائیں اور ناحق فتنہ وفساد میں عمربسر نہ کریں۔ اب ہم دونوں میں سے ان دونوں قسموں سے جو شخص انحراف کرے گا۔ اس پر خدا کی لعنت ہے اور خدا کرے کہ وہ اس لعنت کا پھل بھی اپنی زندگی میں دیکھ لے۔ آمین، سو میں اب دیکھوںگا کہ آپ سنت نبوی کے موافق اس قسم کو پورا کرتے ہیں۔ یا قادیان سے نکلتے ہوئے اس لعنت کو ساتھ لے جاتے ہیں اور چاہئے کہ اوّل آپ مطابق اس عہد مؤکد قسم کے آج ہی ایک اعتراض دوتین سطر لکھ کر بھیج دیں اور پھر وقت مقرر کر کے مسجد میں مجمع کیا جائے گا اور آپ کو بلایا جائے گا اور عام مجمع میں آپ کے شیطانی وسواس دور کر دئیے جائیں گے۔‘‘ (مرزاغلام احمد بقلم خود)
قسط پانزدہم
مولانا ثناء اﷲ صاحب لکھتے ہیں کہ اس خط کو دیکھ کر چاہئے تھا کہ میں مایوس ہوجاتا۔ مگر ارادہ کے مستقل آدمی سے یہ امید غلط ہے کہ وہ ایک آدھ مانع پیش آنے سے مایوس ہو جائے۔ اس لئے میں نے پھر ایک خط لکھا جو درج ذیل ہے۔ ’’الحمدﷲ والسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ۰ اما بعد! از خاکسار ثناء اﷲ۔ بخدمت مرزاغلام احمد صاحب! آپ کا طولانی رقعہ مجھے پہنچا۔ افسوس کہ جو کچھ تمام ملک کو گمان تھا۔ وہی ظاہر ہوا۔ جناب والا جب کہ میں آپ کی حسب دعوت مندرجہ اعجاز احمدی ص۱۱،۱۳ حاضر ہوا ہوں اور صاف لفظوں میں رقعہ اولیٰ میں انہی صفحوں کا حوالہ دے چکا ہوں تو پھر اتنی طول کلامی جو آپ نے کی ہے بجز العادۃ طبیعۃ ثانیۃ کے اور کیا معنی رکھتی ہے۔ جناب من کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آپ اعجاز احمدی کے صفحات مذکورہ پر تو اس نیاز مند کو تحقیق کے لئے بلاتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ میں (خاکسار) آپ کی پیش گوئیوں کو جھوٹی ثابت کروں تو فی پیش گوئی مبلغ سوروپیہ انعام لوں اور اس رقعہ میں آپ مجھ کو ایک دو سطریں لکھنے کا پابند کرتے ہیں اور اپنے لئے تین گھنٹے تجویز کرتے ہیں۔ ’’تلک اذا قسمۃ ضیزی‘‘ بھلا یہ تحقیق کا طریق ہے۔ میں ایک دو سطریں لکھوں اور آپ تین گھنٹے تک فرماتے جائیں۔ اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ آپ مجھے دعوت دے کر پچھتا