تکمیل کے معنی
اس فصل کے اختتام سے پہلے یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ تکمیل دین سے اسلام کامنشاء کیا ہے۔ اس کے ایک معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ اسلام معاشرہ انسانی کے مسلسل ارتقاء کے بارے میں مایوس ہے۔ یعنی اس کا خیال ہے کہ آئندہ اس میں کوئی تغیر رونما ہونے کا نہیں۔ حالانکہ سائنس کی ترقیات صبح وشام اس تصور کی تردید کررہی ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ تغیرات تو ہوتے رہیںگے۔ معاشرہ انسانی آگے بھی بڑھے گا۔ مگر اس میں بنیادی تبدیلیاں رونما نہ ہوںگی۔ سائنس کی ترقیات سے صاف اتنا ہو جائے گا کہ جزئیات کی نئی نئی شکلیں ہمارے سامنے آئیں۔ اقتصاد وسیاست کی نئی نئی جزوی الجھنیں پیدا ہوں۔ جو ہمارے معاشرتی چھوکھٹے کو فی الجملہ متأثر کریں۔ ایسا یقینا ہوتا رہے گا اور ایسا ہونا قطعی اسلام کے حق میں مضر نہیں۔ اسلام کی پوزیشن یہ ہے کہ یہ مکمل ہونے کے باوجود اپنے اندر اجتہادی لچک بھی رکھتا ہے۔ اس لئے اس طرح کی صورتحال سے عہدہ برا ہونا کچھ بھی دشوار نہیں۔
دوسرا محاذ
ختم نبوت کے متعلق ایک محاذ تو ان لوگوں کا تھا جو کھلے بندوں آنحضرتﷺ کے بعد اجرائے نبوت کے قائل تھے۔ ان سے متعلق ہمیں جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے۔ ایک دوسرا محاذ ہے جن سے نبٹنا آسان نہیں۔ کیونکہ یہ لوگ بظاہر ختم نبوت کے قائل ہیں۔ لیکن عقیدہ وعمل کے اعتبار سے ان میں اور دوسرے گروہ میں ہمیں غور وفکر کے بعد بھی کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اس اجمال کی تفصیل معلوم کرنا ہو تو حضرات تشیع کا جو عقیدہ آئمہ اطہار سے متعلق ہے اس پر غور فرمائیے۔ اس سلسلہ کی پہلی بات جس سے نبوت وامامت کے ڈانڈے ملے ہوئے محسوس ہوتے ہیں یہ ہے کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ کا لطف وکرم اس بات کا مقتضی ہے کہ انسانی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجے۔ اسی ڈھنگ کا ایک سلسلہ امامت کا ہے جسے حفظ دین کی خاطر مقرر کیا گیا ہے۔ اس لئے اس کا جاری رکھنا بھی اس کے لطف وکرم کے لئے اتنا ہی ضروری ہے۔ پھر جس طرح پیغمبر معصوم ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی واجبات سے ہے کہ امام بھی معصوم ہو۔ علامہ حلی نے اس پر پانچ دلائل پیش کئے ہیں:
۱…
امامت کی ضرورت یوں محسوس ہوتی ہے کہ عوام ہمیشہ لغزش وخطاء کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ایک شخصیت ایسی ہونا چاہئے جو نگران ہو۔ اب اگر یہ شخصیت بھی غلطی کرسکتی ہے تو اس کی ضرورت ہی نہ رہی۔
۲…
امام محافظ شرع ہے۔ اس لئے اس کے حق میں عصمت کا ہوناشرائط اوّلیہ سے ہے۔