غلطی کا اقرار کرنا پڑتا اورلوگوں میں بدگمانی پھیل جاتی کہ اس نبی اﷲ کو تورات کتاب اﷲکا علم نہیں اور باربار اپنی غلطیوں سے رجوع کرتا ہے۔ ہمارے آقائے نامدار حضرت خاتم النبیینﷺ کو اﷲتعالیٰ نے تمام آسمانی کتابوں کا علم عطاء فرمایا تھا۔ چنانچہ فرمایا اﷲتعالیٰ نے ’’قل فاتو بالتورات فاتلوھا ان کنتم صادقین (آل عمران:۹۳)‘‘ {لاؤ تورات اور میرے سامنے پڑھو اور جو باتیں تم کہتے ہو وہ اس میں سے نکال کر دکھلاؤ، اگر تم سچے ہو۔} اگر حضورﷺ کو اﷲتعالیٰ نے علم تورات نہ سکھلایا ہوتا اور آپ اس زبان سے واقف نہ ہوتے تو یہ چیلنج کس طرح دیتے۔ اسی طرح باقی تمام مذاہب والوں کو چیلنج دیا کہ: ’’فاتوا بکتابکم ان کنتم صادقین (الصافات:۱۵۷)‘‘ پھر فرمایا: ’’قل ہل عندکم من علم فتخرجوہ لنا ان تتبعون الا الظن وان انتم الا تخرصون (انعام:۱۴۸)‘‘ غرضیکہ سید المرسلینﷺ کو تمام انبیائے گذشتہ کی کتابوں کا علم اﷲتعالیٰ نے دے دیا تھا صلی اﷲ علیہ، اور اس میں مصلحت الٰہی یہی ہوتی ہے۔ تادوسری قومیں نبی اﷲ کو کسی بات میں ازروئے علم نہ جھٹلاویں اور یہ بھی انبیاء کے لئے ایک معیار صداقت ہے۔
مرزاقادیانی اور دعویٰ قرآن دانی
ہمارے زمانہ میں بھی مرزاغلام احمد قادیانی نے نبوت ورسالت کا دعویٰ کیا ہے اور بقول ان کے اﷲتعالیٰ نے ان کو ان کے الہام میں نبی ورسول کر کے پکارا ہے۔ جیسا کہ ان کی ابتدائی کتاب براہین احمدیہ میں درج ہے۔ دنیا میں ایک نذیر آیا۔ جس کی دوسری قرأت یہ ہے کہ دنیا میں ایک نبی آیا اور مرزاقادیانی نے یہ دعویٰ بھی ازروئے الہام کردیا کہ ان کو اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید سکھلادیا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’الرحمن علم القرآن‘‘ یعنی رحمن نے مرزاقادیانی کو قرآن سکھلایا۔ یہ وہی آیت ہے جو اﷲتعالیٰ نے محمد رسول اﷲﷺ کی شان میں فرمائی ہے۔ مرزاقادیانی بھی اس آیت کو ازروئے الہام خود اپنے اوپر چسپاں کیا ہے۔ پھر ’’فتبارک من علم وتعلم‘‘ بھی فرمایا۔ پھر مرزاقادیانی نے بھی فرمایا کہ:
گر استادرا نامی ندانمکہ خواندم دردبستان محمد
(آئینہ کمالات ص۶۴۹، خزائن ج۵ ص ایضاً)