کرنے لگے۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے تحریک آزادی کے مظلومین کی امداد کے لئے اکثر رقوم شیخ محمد عبداﷲ کی معرفت دی گئیں۔ (کچھ پریشان داستانیں کچھ پریشان تذکرے، اشرف عطاء ص۱۳۰،۱۳۱)
پمفلٹ لکھنے والے ایڈووکیٹ صاحب نے کشمیر کمیٹی میں مسلم زعماء کی شمولیت کا تذکرہ بھی کیا ہے اور اسے امیر جماعت احمدیہ کی بھرپور قیادت کا کرشمہ قرار دیا ہے کہ ان کی صدارت میں علامہ اقبال اور دوسرے مسلم زعماء کام کر رہے تھے۔
ایڈووکیٹ صاحب تاریخی حقائق کو اس بے دردی سے مسخ کر رہے ہیں کہ جوش مخالفت میں انہیں کشمیر کمیٹی کے افسانے کا کلائمیکس بھی یاد نہیں رہا۔ یعنی جب مسلم زعماء نے اس امر کا اندازہ لگالیا کہ مرزابشیر الدین محمود کمیٹی کو جماعتی مفاد میں استعمال کر رہے ہیں تو انہوں نے لاہور میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے دوسرے اجلاس میں مرزابشیر الدین کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا اور علامہ اقبال کمیٹی کے نئے صدر منتخب ہوئے۔ (ملاحظہ ہو اقبال کا سیاسی کارنامہ محمد احمد خاں ص۱۸۴)
علامہ اقبال اور کشمیر کمیٹی
علامہ اقبال سے قادیانی حضرات کی عداوت اور بغض نے انہیں علامہ کی زیر قیادت کام نہ کرنے دیا اور انہوں نے عملاً کمیٹی سے بائیکاٹ کردیا۔ حتیٰ کہ جو قادیانی وکلاء ریاست میں مسلمانوں کے مقدمات لڑ رہے تھے وہ مقدمات ادھورے چھوڑ کر واپس آگئے۔ اس صورتحال پر علامہ نے ایک اخباری بیان میں تبصرہ کیا۔ ’’بدقسمتی سے کمیٹی میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو اپنے مذہبی فرقے کے سوا کسی دوسرے کا اتباع کرنا سرے سے گناہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ مرزائی وکلاء میں ایک صاحب نے جو میرپور کے مقدمات کی پیروی کرتے رہے تھے۔ حال ہی میں اپنے ایک بیان میں واضح طور پر اس خیال کا اظہار کردیا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ وہ کسی کشمیر کو نہیں مانتے اور جو کچھ انہوں نے ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کیا وہ ان کے امیر کے حکم کی تعمیل تھی۔‘‘ (اقبال اور سیاست ملی رئیس احمد جعفری ص۳۰۳)
کشمیر کمیٹی کے خاتمے کے بعد قادیانیوں نے ایک اور ادارہ تحریک کشمیر کے نام سے قائم کرنا چاہا اور علامہ اقبال کو اس ادارہ کی صدارت پیش کی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب اب قادیانی تحریک کے سخت مخالف بن چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ تحریک کشمیر کے نام سے قادیانی حضرات اپنے عقائد کی نشرواشاعت کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے اس آفر کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ (اقبال کا سیاسی کارنامہ)