تحریر کو بدل دیا اور یہ بات نہ صرف ایک نبی کی شان کے خلاف ہے۔ بلکہ کسی صاحب دیانت انسان کی شان کے شایان بھی نہیں۔
دوم… مرزاقادیانی اپنی کتاب (کشتی نوح ص۵، خزائن ج۱۹ ص۵) پر لکھتے ہیں کہ: ’’اور یہ بھی یاد رہے کہ قرآن شریف میں بلکہ جب کہ توریت کے بعض صحیفوں میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گی۔‘‘
مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ اپنے عہد طفلی سے قرآن پاک کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ گاہے گاہے غفلت سے یہ سلسلہ منقطع بھی ہوا۔ مگر بحمداﷲ کہ پھر جلد شروع ہوگیا۔ کئی ترجمے بھی میری نظر سے گذرے ہیں۔ لیکن کوئی آیت کریمہ میری نظر سے ایسی نہیں گذری۔ جس سے مرزاقادیانی کے محولہ بالا قول کی تائید ہو اور غضب یہ کہ مرزاقادیانی کا یہ مقولہ قرآن پاک اور دوسری کتب سماوی کے متعلق ہے۔ جن کے بارے میں ایسی بات کہنا آسان نہیں۔ یہ لکھنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نبی تو درکنار یہ بات ایک عام انسان کی شان کے شایان بھی نہیں ہے۔
سوم… مرزاقادیانی کی کتاب (ازالہ اوہام ص۷۷، خزائن ج۳ ص۱۴۰) پر نگاہ ڈالئے اور کتاب (البشریٰ ج۱ ص۱۹) اٹھا کر دیکھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج ہے۔ مکہ اور مدینہ اور قادیان۔‘‘
مجھے پھر ندامت سے مرزاقادیانی کے قول کی تردید کرنا پڑتی ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے نام تو قرآن پاک میں بالصراحت موجود ہیں۔ لیکن قادیان کا نام میری نگاہ سے نہیں گذرا۔ اگر ایسا ہو تو یہ میری معلومات میں ایک گرانقدر اضافہ ہوگا۔ فی الحال میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ مرزاقادیانی نے قرآن پاک کے متعلق وہ حوالہ دیا ہے جو اس میں موجود نہیں اور یہ بات ان کی اور ہر انسان کی شان سے بہت ہی بعید ہے۔
قسط بست وپنجم (۲۵)
میں نے اوّل اوّل مرزاقادیانی کے دعاوی بیان کئے۔ پھر ان دعاوی کو میں نے بیس حصوں میں تقسیم کیا۔ ان میں سے جو دعاوی الوہیت یا ابن اﷲ ہونے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان پر میں نے پہلے بحث کی۔ اوتار ہونے کے دعاوی کو میں نے پیچھے ڈال دیا اور ان پر مجھے ابھی اظہار خیال کرنا ہے۔