زندگی متحرک ہے
جوچیزغوروفکر کی محتاج اور بحث طلب ہے وہ یہ ہے کہ آیا انسانی معاشرہ ہر لمحہ تغیر پذیر ہے یا کہیں کسی منزل پر تکمیل واتمام کے تقاضوں کے سامنے اس کی رواں گاڑی رکتی بھی ہے؟
حکمائے مغرب کا ایک گروہ انسانی معاشرہ کو بھی بجائے خود اسی طرح نامی، حی اور ہرآن ارتقاء پسند سمجھتا ہے۔ جس طرح کائنات کے دوسرے ظہورات، برگسان کا قول ہے کہ انسانی معاشرہ زندگی کے نئے نئے میدانوں میں خیمہ گاڑتا رہتا ہے اور یہ واقعہ ہے۔ حقیقت اس سے زیادہ ایک حرف نہیں کہ وہ تعبیرہے۔ ایک طرح کی حرکت سے جس کی سمتیں اور منزل پہلے سے متعین ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور بڑے بڑے فلسفی صرف اتنا کرتے ہیں کہ اپنے پیغام وعمل سے اس معاشرہ کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان راہوں پر اسے ڈالتے ہیں جو آسانی سے منزل تک پہنچانے میں ممدو معاون ہوں۔
نشوونمو کی صلاحیتیں پہلے سے معاشرہ میں موجود ہوتی ہیں۔ انبیاء علیہم السلام اور حکماء وقائدین کی کوششوں سے صرف یہ ہوتا ہے کہ ان صلاحیتیوں میں ایک طرح کی زندگی وتازگی پیدا ہوجاتی ہے اور انسانی معاشرہ اس لائق ہوجاتا ہے کہ اپنے سفر کو خوش اسلوبی سے جاری رکھ سکے اور آگے بڑھا سکے۔
صحیفۂ آدم کا حجم
زندگی سے متعلق یہ نظریہ ارتقاء صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ صحیح اس حد تک ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی بلاشبہ بالکل سادہ خانوں سے شروع ہوئی۔ چنانچہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو جو پہلے انسان اور پہلے پیغمبر ہیں۔ جو کتاب ہدیٰ دی گئی۔ اس کا حجم دو سطروں سے زائد پھیلاؤ کا نہیں ایک سطرمیں اﷲ کی توحید کے ساتھ ساتھ ان کے گرد وپیش کا تعارف مرقوم ہے۔ ’’وعلم اٰدم الاسماء کلہا‘‘ {اور آدم کو سب چیزوں کے نام بتائے۔}
اور دوسری سطر میں لکھا ہے: ’’ولا تقربا ہذہ الشجرۃ‘‘ {اور دیکھو اس درخت کے قریب نہ جانا۔}
پھر جس رفتار سے زندگی کی وسعتوں میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ احکام بھی اسی نسبت سے پھیلتے گئے۔ قرآن حکیم کے مطالعہ سے ہمیں انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں برابر ایک طرح کی تدریج وارتقاء کا سراغ ملتا ہے اور محسوس طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ہر لاحق نے اپنے سابق سے معاشرہ کی دولت کو جس حال میں پایا ہے۔ اس میں کچھ اضافہ ہی کیا ہے۔ یا یوں کہئے کہ معاشرہ کی رفتار کو