اپنے اعمال اور زندگی کے ظہورات میں اتنا معقول پسند نہیں ہے جتنا کہ نفس کی تحریکات کے مقابلہ میں مجبور ہے۔ یعنی یہ جو چار دانگ عالم میں اس کی منطق آرائی اور فلسفہ دانی کے ڈھنڈورے پٹ رہے تھے۔ اس کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ خارجی دنیا میں اس کے اقتدار وسطوت کا چاہے کتنا چرچا ہو اور وہ صحیح بھی ہو۔ باطن کی ابھری ہوئی اور فعال خواہشات سے عہدہ برا ہونے کی تو اس میں مطلق سکت نہیں۔ کیونکہ عقل وخرد کا مزاج ہی ایساہے کہ یہ اپنے اندر فعال رہنمائی کی صلاحیتیں بالکل نہیں رکھتی۔ اس کے کام کا ڈھنگ اس طرح کا ہے کہ یہ صرف نیک وبد کے فرق کو ایک مرتبہ سمجھا دیتی ہے۔ عملی زندگی سے یہ تعرض نہیں کرتی اور آخر آخر میں تو ترغیبات کے مقابلہ میں یہ اتنی مغلوب ہوجاتی ہے کہ اس کا کام فقیہہ شہر کی طرح صرف یہ رہ جاتا ہے کہ جب ایک برائی ہوچکے تو یہ اس پر جواز کی مہر ثبت کر دے۔ البتہ نبوت کی عقل ایسی ہوتی ہے جس میں حقانیت کی جھلک ہے اور جو گناہوں سے نبٹنے کی پوری پوری صلاحیت اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس لئے کہ اﷲتعالیٰ کی ربوبیت کو یہ منظور ہے کہ کائنات انسانی کے لئے کچھ اسوہ ونمونہ کی روشن سطحیں کروٹ نہ لیں اور پھر اس عقل فعال وپاک میں بھی بشریت کی اتنی رعایت موجود ہے کہ اجتہاد وفکر کی لغزشوں کا برابر امکان موجود رہے۔ ونسی اٰدم ؎
اوّل الناس اوّل ناس
لہٰذا کسی انسان کو جب ک اس کا مزاج بشری یہی ہے معصوم ٹھہرانا قطعی غیر عقلی اور غیر اسلامی ہے۔ انبیاء کے باب میں عصمت کا ماننا تو اس لئے درست ہے کہ اﷲتعالیٰ نے اس کا اہتمام فرمایا ہے کہ انہیں فکروعمل کی کسی لغزش پر قائم نہ رہنے دیا جائے۔ لیکن ائمہ کے باب میں اس ڈھنگ کے اہتمام کا کہیں ذکر نہیں۔
مذہب کا مطالبہ
انسانی فطرت کی اسی کمزوری کے پیش نظر کہ یہ ترغیبات نفس کا آسانی سے شکار ہو جاتا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اسے گناہوں کے معاملہ میں کلی احتراز کا مکلف نہیں گردانا۔ یعنی اس سے مذہب کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ اس سے کبھی گناہ کا صدور نہ ہو یا کبھی اس کے ذہن وفکر میں لغزش کروٹ نہ بدلے۔ بلکہ صرف اور صرف اس قدر ہے کہ یہ حتی المقدور پاکبازی ونیکی کے معیاروں کو قائم رکھنے کی سعی کرے اور اس پر بھی اگر گناہ ومعصیت کی جاذبیتیں اسے بہکا ہی دیں تو فوراً متنبہ ہواور اﷲتعالیٰ کے آگے بخشش کے لئے دعا وطلب کے ہاتھ پھیلادے۔
’’واما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذباﷲ انہ ھو السمیع