ظلی نبی ہوئے۔ عیسائیوں کے لئے مسیح، ہندوؤں کے لئے کرشن اور سکھوں کے لئے کلغی والے بن گئے۔ لیکن افسوس ہے کہ یہ نہ سمجھے کہ ان تمام دعاوی میں بعد المشرقین پیدا ہو جائے گا۔ آو! ذرا ان کے کرشن ہونے کے دعویٰ پر مزید غور کریں۔ کرشن جی کے مخالفوں کو ان کے چلن پر اعتراض ہے۔ احمدی بھائی کہتے ہیں کہ کرشن جی کے متعلق ایسے تمام حصے جن میں گوپیوں کا ذکر ہے۔ صحیح نہیں ہیں اور اگر صحیح ہیں تو کیا حضرت سلیمان کی بیویاں صدہاسے متجاوز نہ تھیں۔
اوّل تو کرشن جی مہاراج اور ان کی گوپیوں کے قصے ہندوؤں کی مستند کتابوں میں مذکور ہیں اور ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم ان کو جھوٹا یا محرف قرار دیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ لالہ لاجپت رائے اور دوسرے مستند ہندو مؤرخین نے ۸ سے لے کر ۱۰۸ گوپیوں تک کا وجود صحیح مان لیا ہے یہ تو وہی مثل ہوئی کہ: ’’مدعی سست وگواہ چست‘‘ اگر کرشن جی اور ان کی گوپیوں کے واقعات سچے ہیں تو ان کو حضرت سلیمان علیہ السلام سے تشبیہ دینا انتہاء کی گستاخی ہے۔ حضرت سلیمان نے وہ کیا جو ان کی شریعت کی رو سے جائز تھا۔ ان کی تمام بیویاں ان کی منکوحہ عورتیں تھیں اور منکوحہ اور غیر منکوحہ سے تعلق رکھنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ میں اس بات کو ذرا واضح کئے دیتا ہوں۔ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں اجتماع بین الاختین یعنی دوسگی بہنوں سے نکاح جائز تھا اور کہاجاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حرم میں دوسگی بہنیں موجود تھیں۔ آج یہ حرام کردیا گیا ہے۔ پس اگر کوئی شخص آج دوبہنوں سے نکاح کر کے یہ کہے کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایسا نہیں کیا تھا۔ تو سوائے ازیں کہ اس کی عقل پر آنسو بہائے جائیں اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ہاں اگر مرزاقادیانی یا ان کے مرید یہ کہیں کہ اسلام کے خدا نے جو نبی بھیجے۔ ان میں سے کسی کو کسی وقت غیر منکوحہ عورتیں بھی داخل حرم کرنے کی اجازت تھی تو اور بات ہے۔
جس طرح میں نے بحث کی خاطر سے مان لیا ہے کہ مرزاقادیانی نے کرشن جی کو خدایا خدا کا اوتار نہیں بلکہ نبی مان کر کرشن ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اسی طرح میں محض بحث کی غرض سے یہ بھی تسلیم کئے لیتا ہوں کہ کرشن جی مہاراج کے چلن کے متعلق جو کچھ بھی ہندوؤں کی مسلمہ ومستند کتابوں میں درج ہے۔ وہ غلط ہے اور کرشن جی مہاراج کا چلن ہرقسم کے شبہ سے بالاتر ہے۔
قسط سی ودوم (۳۲)
اس کے بعد کرشن جی کی تعلیم کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ دیکھنا لازمی ہے کہ ان کی تعلیم اسلام کے موافق تھی یا متضاد۔ اس کا جائزہ لینا اس لئے ضروری ہے کہ ہم فیصلہ کر سکیں کہ وہ نبی تھے یا نہ تھے۔