پولوس نے اس وقت تک حضرت مسیح کی پرزور مخالفت کی۔ جب تک وہ ان میں موجود رہے۔ پھر جب اس نے دیکھا کہ اب میدان صاف ہے تو اپنی نبوت کا ڈھونگ رچایا اور عیسائیت کے خدوخال تک کو مسخ کرڈالا۔ لیکن انبیاء کی پوری تاریخ میں اس حقیقت کی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ ایک شخص نے تو نبوت کا اونچا دعویٰ کیا ہو اور اس کے ماننے والوں نے اور مخاطبین اوّلین نے پوری دیانتداری سے اس سے کہیں کم درجے کا اسے اہل سمجھا ہو۔ یعنی جوش محبت اور غلو عقیدت نے انبیاء کو خدا کے جاہ وجلال کا پیکر تو ٹھہرایا ہے۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خود ماننے والوں نے اسے نبوت کی بلندیوں سے نیچے اتار لیا ہو اور تجدید واصلاح کی مسند پر لابٹھایا ہو۔ یہ خصوصیت صرف مرزاقادیانی کو حاصل ہوئی ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ آخر وقت تک خود ان کے ذہن میں یہ کھٹک رہی کہ میرا منصب کیا ہے کیا میں واقعی اﷲ کا نبی ہوں یا صرف تجدید واصلاح کے منصب پر مجھے ٹرخایا جارہا ہے؟ بات یہ ہے کہ مرزاقادیانی لہری آدمی تھے۔ جب کبھی خوش فہمیوں نے زور مارا تو نبوت کے فراز اعلیٰ تک اچھل گئے اور پیغمبرانہ بلندیوں تک کو چھوآئے اور جب دماغ متوازن ہوا اور مور کی طرح اپنے پیروں پر نظر پڑی تو عاجزی کی لہر طاری ہوگئی اور آپ نے یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ توبہ میں نے نبوت کا ادّعا کب کیا ہے۔ میں تو صرف آنحضرتﷺ کا امتی ہوں اور سوا تجدید کے اور کسی شے کا مدعی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس شخص کے ذہن میں الجھاؤ ہو جو خود اپنے منصب سے متعلق یقین کے ساتھ کوئی رائے نہ رکھتا ہو اور جو بیک وقت متضاد دعاوی کی رٹ لگاتا ہو، کیا ایسا شخص ذہنوں میں کوئی سلجھاؤ پیدا کرسکتا ہے۔ کیا اس کے ماننے سے دماغوں میں روشنی کی کوئی کرن آسکتی ہے۔ چنانچہ مرزائی ذہنوں میں جو ایک طرح کی پیچیدگی اور پریشانی آپ محسوس کرتے ہیں اور تناسب اور سلجھاؤ کا فقدان پاتے ہیں تو یہ درحقیقت نتیجہ ہے۔ اسی نمونے کا جس نے تربیت ہی ایسی پائی ہے۔ فکر ونظر کی ٹیڑھ اور ژولیدگی سے اب ہرہر مرزائی پر اس کا یہ اثر ہے کہ استواری کے ساتھ یہ کسی مسئلہ پر غور ہی نہیں کرسکتے۔
مجازی نبی اور ظلی نبی
مرزاقادیانی کی کتابوں میں اتنا الجھاؤ، تکرار اور ذوق صحیح سے محرومی وتہہ دستی کا مظاہرہ ہے کہ کوئی شخص بھی انہیں بالاستیعاب نہیں پڑھ سکتا۔ بلکہ خود ذوق صحیح کی پہچان ایک طرح سے یہ ہے کہ پڑھا لکھا آدمی اس معاملہ میں سپر ڈال دے اور اپنے عجز کا پوری طرح اعتراف کرے۔ یعنی سوائے ایک طرح کے مراق اور بدذوقی کے یہ ناممکن ہے کہ ان کی کتابوں سے شغف پیدا ہوسکے۔ میرا اپنا یہ حال ہے کہ بارہا ان کی کتابیں پڑھنے کا عزم کیا۔ بظاہر کتاب ہاتھ میں اٹھا بھی