قسط چہاردہم
مرزاقادیانی کی پیشین گوئیوں میں سے ایک پیشین گوئی مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسری کے متعلق تھی۔ اس کا حال مولانا ممدوح نے اپنے قلم سے باتفصیل لکھا ہے۔ میں نے کئی اور کتابوں کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ مجھے مولانا ثناء اﷲ صاحب کے بیان میں کوئی مبالغہ یا غلط بیانی یا اخفائے حق یا تلبیس حق وباطل کا نشان نہیں ملا۔ لہٰذا میں مولانا کی تحریر کو یہاں بجنسہ نقل کئے دیتا ہوں۔ میری نگاہ میں اس معاملہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ لیکن اس پر میں مولانا کے بیان کے اختتام پر بحث کروںگا اور اپنا نظریہ ناظرین کرام کی خدمت میں پیش کروںگا۔ ’’وباﷲ التوفیق‘‘
سوم… مولانا ثناء اﷲ کی موت: مولانا صاحب اپنی کتاب تاریخ مرزا میں لکھتے ہیں۔ ’’جب میری عمر کوئی ۱۷،۱۸ سال کی تھی۔ میں بشوق زیارت بٹالہ سے پا پیادہ تنہا قادیان گیا۔ ان دنوں مرزاقادیانی ایک معمولی حیثیت میں تھے۔ مگر باوجود شوق اور محبت کے میں نے جو وہاں دیکھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میرے دل میں جوان کی نسبت خیالات تھے۔ وہ پہلی ملاقات میں مبدل ہوگئے۔ جس کی صورت یہ ہوئی کہ میں ان کے مکان پر دھوپ میں بیٹھا تھا۔ وہ آئے آتے ہی بغیر اس کے کہ السلام علیکم کہیں یہ کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو۔ کیا کام کرتے ہو۔ میں ایک طالب علم علماء کا صحبت یافتہ اتنا جانتا تھا کہ آتے ہی السلام علیکم کہنا سنت ہے۔ فوراً میرے دل میں آیا کہ انہوں نے مسنون طریق کی پرواہ نہیں کی۔ کیا وجہ ہے۔ مگر چونکہ حسن ظن غالب تھا۔ اس لئے یہ وسوسہ دب کر رہ گیا۔
جن دنوں آپ نے مسیحیت موعود کا دعویٰ کیا۔ میں ابھی تحصیل علم سے فارغ نہیں ہوا تھا۔ آخر بعد فراغت میں آیا تو مرزاقادیانی کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔ دل میں تڑپ تھی۔ استخارے کئے، دعائیں مانگیں۔ خواب دیکھے جن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرزاقادیانی نے مجھے اپنے مخالفوں میں سمجھ کر مجھ کو قادیان میں پہنچ کر گفتگو کرنے کی دعوت دی۔ جس دعوت کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’مولوی ثناء اﷲ اگر سچے ہیں تو قادیان میں آکر کسی پیش گوئی کو جھوٹی تو ثابت کریں اور ہر ایک پیش کے لئے ایک ایک سو روپیہ انعام دیا جائے گا اور آمدورفت کا خرچ اور کرایہ علیحدہ۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۱۱، خزائن ج۱۹ ص۱۱۷)
یہ بھی لکھا کہ: ’’یاد رہے کہ رسالہ نزول المسیح میں ڈیڑھ سو پیش گوئی میں نے لکھی ہے۔ تو