بخاری ومسلم کی اس حدیث سے کہ: ’’کانت بنواسرائیل تسوھم الانبیائ‘‘ {بنی اسرائیل میں عنان تربیت انبیاء کے ہاتھوں میں رہی۔}
اور اب خلفاء ہوںگے کیونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں پیداہوگا۔ یہ ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ کے بعد دین کی خدمت اور امت کی اصلاح کا اندازہ کیاہوگا۔ اسی طرح ان تمام احادیث پر نظر ڈالتے جائیے۔ جس میں ’’لا نبی بعدی‘‘ کی تکرار ہے اور یہ ملاحظہ فرمائیے کہ اس مفہوم کو الفاظ کے الٹ پھیر کے ساتھ کتنے اسالیب میں سمویا ہے؟ اس لئے آپ کو یہ اندازہ ہوگا کہ اس مسئلہ کی وضاحت اس سے زیادہ ممکن ہی نہیں۔ یوں تاویل کے حدود وملکات کا یہ حال ہے کہ نصوص صریحہ کو متشابہات کے تحت میں رکھاجاسکتا ہے اور متشابہات کو اصل کتاب اور ام الکتاب ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ ہمیں اس موقعہ پر صرف یہ دیکھنا ہے کہ اس حقیقت کے اظہار کے لئے جو جوڈھب کتاب وسنت میں اختیار کیاگیا ہے کیا انسانی قدرت میں اس سے زیادہ کی استطاعت ہے؟ اور کیا کوئی خلش ایسی ہے جو قرآن وحدیث کی ان تصریحات کے بعد بھی باقی رہ جاتی ہے یا کوئی شبہ ہے جو دل میں ٹھہر سکتا ہے؟
قرآن وحدیث کے ان تمام دلائل کو میں ایک ہی دلیل قرار دیتا ہوں اور میرا مطالبہ یہ ہے کہ ان پر جب بھی نظر ڈالی جائے تو وہ مجموعی حیثیت سے ہو۔ ایک ایک آیت اور ایک حدیث پر سرجری نہ فرمائی جائے۔ اس انداز فکر سے ہم لغت کے تائیدی حوالوں سے بڑی حد تک بے نیاز ہوجاتے ہیں۔ تاہم بحث تشنہ رہے گی۔ اگر یہ نہ بتایا گیا کہ آئمہ لغت کی اکثریت نے جن کی رائے ہم تک پہنچ سکی ہے لفظ ختم سے کیا سمجھا ہے۔
ایک حقیقت کا نادانستہ اعتراف
یہ واضح رہے کہ ہمارا نقطۂ نظر یہاں بھی لغت کی ورق گردانی یا حوالہ بازی نہیں بلکہ ہم اس کو بالکل دوسرے ڈھب سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ نہ جاننے اور اس پر بحث کرنے میں بڑا لطف ہے۔ بسا اوقات آدمی بات وہی کہہ دیتا ہے جس سے اس کے خصم کا دعویٰ ثابت ہوتا ہے۔ لیکن نادانی وجہل کی وجہ سے یہ نہیں جان پاتا کہ کیونکر؟ آپ نے یہ اکثر دیکھا ہوگا کہ دوران بحث میں لفظ ختم کی وضاحت کرتے ہوئے جب متعدد حوالے پیش کئے گئے اور یہ بتایا گیا کہ یہ سب حضرات اس کی ایک ہی تعبیر پر متفق ہیں تو مخالف کیمپ سے اس کا ڈھلا ڈھلا یا جواب یہ ملا۔ (اور ان کے ہاں جواب اکثر تیار رہتے ہیں) کہ اس تعبیر پر اتفاق رائے ان کے ہم عقیدہ ہونے کی وجہ