مرزاقادیانی کی کبھی نہ پوری ہونے والی پیش گوئیوں کو ایسی ترازو پر تول سکے۔ جس سے یہ معلوم ہو کہ یا تو تمام پہلے انبیاء معاذ اﷲ اسی طرح کی مہمل اور متضاد باتیں کرتے رہے ہیں اور یا پھر پیشین گوئی چیز ہی ایسی ہے کہ اس کے ٹھیک ٹھیک منشاء تک رسائی ناممکن ہے۔ پھر اگر یہ منشاء اس کے زعم کے مطابق پورا ہو جاتا ہے تو اس کی نفسیات مذہبی کی تسکین ہوجاتی ہے۔ وہ اب اس کا ہرگز مکلف نہیں ہے کہ مذہب کے اصولی واساسی تقاضوں پر عمل پیرا بھی ہو۔ یہ بات صرف مرزائی مناظر ہی سے مخصوص نہیں۔ دینی تصور کا یہ بگاڑ ہر اس شخص میں پیدا ہوجاتا ہے جو اس ذہن کا حامل ہے۔ یعنی بحث وجدل کی اہمیت اس گروہ میں اس درجہ محسوس کی جاتی ہے کہ اسی کو حاصل دین سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ نزاعی مسائل پر ان کے انداز اور اسلوب پر نہیں سوچتے تو یہ کبھی آپ کی اصابت رائے کے قائل نہیں ہوسکیں گے۔
مرزائی نقطہ نظر کا صحیح تجزیہ
یوں تو یہ ذہنیت بجائے خود اس لائق نہیں ہے کہ کسی مسئلہ پر سنجیدگی کے ساتھ بحث کی توقع اس سے کی جاسکے۔ لیکن جو کجی خصوصیت سے اس انداز فکر سے ذہن میں پیدا ہوتی ہے وہ تنگ نظری ہے۔
ایک مناظر کسی مسئلہ پر غور کرتے وقت اس کی تمام متعلقہ تفصیلات پر سوچ بچار کی کبھی زحمت گوارا نہیں کرے گا۔ بلکہ اس کا انداز یہ ہوگا کہ یہ ایک آیت یا ایک حدیث جس کو دیکھے گا کہ اس کے مقصد کو کسی حدتک پورا کرسکتی ہے اسے مضبوطی سے پکڑے گا اور کوشش کرے گا کہ یہیں کھونٹا گاڑ کر بیٹھ جائے۔ اب نہ تو وہ خود یہاں سے ہلے گا اور نہ آپ کو ہلنے دے گا۔ اس کی یہ خواہش ہوگی کہ اسی ایک آیت یا حدیث سے وہ تمام تفصیلات جو مطلوب ہیں نکل آئیں۔
حالانکہ قرآن یاسنت کا یہ انداز نہیں ہے۔ بلکہ ہر ہر مسئلہ کے لئے وضاحت وتفصیل کا یہاں ایک مقام ہوتا ہے اور قرآن وحدیث میں کسی مسئلہ کے تفحص کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسی مقام پر نظر ڈالی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس خصوص میں ہمیں کتاب وسنت کے سرچشموں سے کیا ملتا ہے۔ جن لوگوں نے مرزائیوں سے بحث کی ہے وہ ہماری تائید کریں گے کہ یہ ان کے انداز بحث کا صحیح تجزیہ ہے۔
یہ لوگ جب حیات مسیح کے مسئلہ پر مثلاً غور کریں گے تو اس انداز سے نہیں کہ اس بحث کی منطقی تنقیحات کیا ہوسکتی ہیں؟ اور اس گتھی کو سلجھانے کے لئے ہمیں کن راستوں پر گامزن ہونا