تکلیف نہیں دیتا۔} اس کے معنی کیا ہیں یہ کہ جس شخص میں وسعت نہ ہو اس پر جہاد یا دوسرے احکام قرآنی کا بجالانا فرض نہیں۔
ملت افراد کے اجتماع کا نام ہے۔ اگر کسی ملت کے تمام افراد بہ حیثیت مجموعی جہاد کی وسعت نہ رکھتے ہوں تو ظاہر ہے کہ اس قوم پر جہاد فرض نہیں ہوتا اور جہاد کا فیصلہ کون کرسکتا ہے۔ ملت۔ چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’وامرہم شوریٰ بینہم‘‘ {اور ان کی حکومت کا طرز یہ ہے کہ وہ آپس میں مشورہ کر لیتے ہیں۔}
پس اگر ملت کے افراد باہمی مشورہ سے طے کریں کہ ملت میں جہاد کی وسعت نہیں تو جہاد کا فرض اس ملت پر عائد ہی نہیں ہوتا۔ یوں ثابت ہوا کہ ان احکام کی موجودگی میں تنسیخ جہاد کے لئے نبی کی بعثت کی ہر گز ضرورت نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا مرزاقادیانی کا یہ اعلان کرنا کہ وہ نبی تھے اور ان کی وساطت سے آیات جہاد منسوخ قرار دی گئیں۔ ایک ایسا اعلان ہے جو کسی صورت میں بھی کسی مسلمان کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
سترھویں دلیل
لہٰذا مرزاقادیانی کی تحریک کے خلاف میری دلیل یہ ہے کہ انہوں نے کوئی کام ایسا نہیںکیا جو ان کے ادّعائے نبوت کو ضروری یا مسلمانوں کے لئے مفید ثابت کرے۔ بدیں وجہ ان کی تحریک ہم مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
قسط بست ونہم
ہر انسان اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے۔ لیکن نبی اس سے بری ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ خدا کا رسول ہوتا ہے اور اس کی ہدایت کرنے والا غلطی سے بالاتر ہے اور پھر غلطی بھی وہ جو اصول دین سے تعلق رکھتی ہو نبی اﷲ سے کیسے سرزد ہوسکتی ہے۔ مگر مرزاقادیانی کے اقوال وافعال کو دیکھا جائے تو ان میں رخنے میں رخنے نظر آتے ہیں۔ میں جہاد کے متعلق ان کے غلط استدلال پر بحث کرچکا ہوں۔ اب مناسب تفصیل کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک قادیان کے اجراء سے مرزاقادیانی ملت مرحومہ کے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہوئے اور ممدوح کی تحریک میرے لئے قابل قبول نہیں۔
اٹھارہویں دلیل
مرزاقادیانی نے اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا۔ آپ کی وجہ سے امت مرحومہ کو جو عظیم الشان نقصانات ہوئے ان کی تفصیل ملاحظہ ہو۔