یا مفہوم وہ ہے جو ایک آیت یا ایک حدیث میں منفرداً مذکور ہے اور ایک اس کی وہ جامع اور واضح شکل ہے جو کتاب وسنت کے دفاتر وابواب میں مختلف پہلو اور پیرایہ ہائے بیان میں مستور ہے۔ ان دونوں میں وضاحت وتعین کا جو فرق ہے وہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔
یہ قطعی ممکن نہیں کہ ایک مسئلہ اپنے طبعی پھیلائو کے ساتھ کسی ایک جگہ اس انداز سے آجائے کہ کوئی پہلو اجمال کا اس میں نہ رہے یا کوئی غلط تاویل نہ پیدا ہوسکے۔ یا کسی شک وظن کی گنجائش نہ نکل سکے۔بلکہ اس کے برعکس قرآن وحدیث کا مسائل کے باب میں یہ انداز خاص ہے جو بالکل فطرت انسانی کے مطابق ہے کہ ایک مقام پر صرف انہیں حقیقتوں کا اظہار ہو جن کا اظہار وہاں مقصود ہے۔ قرآن وسنت کا انداز بیان فقہ وقانون یا انسانی فنون سے مختلف ہے۔ کیونکہ ان کے سامنے صرف چند اصول ہی نہیں جن کو سمجھانا مقصود ہے۔ پوری انسانی زندگی ہے۔ پورا معاشرہ ہے۔ زمانہ کا ایک مخصوص ذہن ہے۔ وقت کے رسم ورواج اور تصورات وعقائد ہیں۔ آنحضرتﷺ مکلف ہیں کہ ایک خاص تدریج اور ترتیب سے ان تک اﷲتعالیٰ کے احکام پہنچائیں اور خاص ڈھب سے ان کی ترتیب فرمائیں۔ اس لئے وہاں ترتیب مسائل کا وہ ڈھب قدرتاً نہیں ہوسکتا۔ جو ہم کو فنون کی کتابوں میں ملتا ہے۔ کیونکہ ان کے سامنے صرف فن اور اس کے متعلقات ہیں اور آنحضرتﷺ کے سامنے ایک قوم ہے جس کی اصلاح کی ایک خاص رفتار ہے۔ اس لئے قرآن وسنت کی ہدایات ونصوص اس تاریخی رفتار کے دوش بدوش چلتے ہیں۔
ایک نکتہ
یہی وہ نکتہ ہے جس پر نظر نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے قرآن حکیم میں ازراہ تکلف ربط آیات کی تلاش شروع کر دی اور قرآن کو بھی ایک انسانی کتاب بنانا چاہا۔ جس میں ترتیب بیان کا وہی انسان ڈھنگ ہے گویا وہ بھی ایک فن ہے اور اس میں بھی وہی ترتیب وربط ہے جو فن کی دوسری کتابوں میں ہوتا ہے۔ حالانکہ کتاب وسنت ایک قوم کی ترتیب کا عملی وعلمی ریکارڈ ہے۔ اس میں جو ترتیب ہے وہ تاریخی ہے۔ واقعات کی ہے۔ مسائل ومضامین کی ہے۔ اس انداز کی نہیں کہ آپ ایک ایک آیت کو ماقبل سے متصل اور جڑا ہوا پائیں۔
دوسرا مقدمہ
اس لئے قدرتاً دوسرا مقدمہ یا اصول فہم مسائل جس کا مرعی رکھنا ضروری ہے یہ ہوگا کہ جب کسی مسئلہ پر غور کریں۔ بشرطیکہ وہ مسئلہ اہم اور بنیادی بھی ہو تو اس کے پورے متعلقات کو بیک وقت زیر نظر لائیں۔ کتاب وسنت میں تفحص اور تلاش سے ایسی مقامات کا پتہ لگائیں جہاں اس