محض اجتہاد سے اس کا مصداق ٹھہرایا۔ لیکن جب مولوی عبداللطیف اور شیخ عبدالرحمن امیرکابل کے ناحق ظلم سے قتل کئے گئے۔ تب روز روشن کی طرح کھل گیا کہ اس پیش گوئی کے مصداق یہی دونوں تھے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۶۲، خزائن ج۲۲ص۲۷۴)
الجواب: ناظرین کرام! ورق الٹ کر ضمیمہ کی عبارت ملاحظہ کریں۔ وہاں اس اور اس کے ساتھ کی دوسری گول مول پیش گوئیوں کے متعلق صاف مرقوم ہے۔ ان کا سر اس وقت خدانے مجھ پر کھول دیا ہے۔ (براہین احمدیہ ص۵۴،۵۵، خزائن ج۱ ص۳۳۹) میں ’’ایسے بہت اسرار ہیں۔ جواب کھلتے جاتے ہیں۔‘‘
ماسوا اس کے ہم تحریرات مرزا نقل کرآئے ہیں کہ ان کا ہرقول وفعل بقول خود بحکم خدا تھا۔ لہٰذا اس جگہ مرزاقادیانی کا یہ عذر مجھے مدت تک اس کے معنی معلوم نہ ہوئے۔ اجتہاد سے اور اور جگہ کو اس کا مصداق ٹھہراتا رہا۔ صریح کذب، بدیہی جھوٹ اور صاف مغالطہ ہے۔
الہامی دوکان کی تیسری بوتل
بے پتہ الہام
’’قتل خیبۃ وزید ہیبۃ‘‘ ایک شخص جو مخالفانہ کچھ امیدرکھتا تھا۔ وہ نا امیدی سے ہلاک ہوگیا اور اس کا مرنا ہیبت ناک ہوگا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ص۷۷ الہام ۹؍جنوری ۱۹۰۳ئ)
اس تحریر میں کوئی تعین نہیں کہ وہ شخص کون ہے۔ اس وقت سے پہلے مرچکا ہے۔ یا آئندہ مرے گا۔ محض گولائی اور دورنگی ہے۔ الہامی لفظ زمانہ ماضی کی حکایت کر رہے ہیں۔ یعنی ایک شخص زمانہ سابقہ میں ناکام ہلاک ہوگیا۔ مگر بقایا ترجمہ زمانہ آئندہ کی خبر دے رہا ہے۔ اس کا مرنا ہیبت ناک ہوگا۔ مطلب اس دورخی سے یہ تھا کہ اگر ان دنوں کوئی مخالف مرگیا تو اس پر لگادیںگے۔ ورنہ کسی گذشتہ مخالف کے سرمڑھ دیںگے۔ بہرحال اس سے اتنا صاف عیاں ہے کہ مصداق اس الہام کا کوئی مخالف مرزا ہے۔
بے تکی تعیین
خداکی قدرت ہے اس کے چند دن بعد ہی ایک سقہ جو مرزاقادیانی کے ہاں پانی بھرا کرتا تھا فوت ہوگیا۔ پھر کیا تھا آپ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً سے پہلے اسے اس کا مصداق ٹھہرادیا۔ چنانچہ اخبار البدر مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء میں لکھا ہے کہ: ’’ایک سقہ جو کہ حضرت اقدس کے ہاں