سردست یہ اگرچہ ایک مسلمہ ہے اور اپنے معنوں میں بالکل واضح۔ تاہم اسے معرض بحث میں لانے پر ہم مجبور ہیں۔ اس کا فیصلہ کہ حقیقت ثابۃ کیا ہے۔ اب دلائل پر موقوف ہے۔ اس فریضہ سے عہدہ براہونا بہر آئینہ بہت مشکل ہے کہ ایک حقیقت کو بحث کی سطح پر لایا جائے اور پھر اس حقیقت کی سطح تک پہنچایا جائے۔ مگر اس کا کیا کیجئے کہ ایسا ہونا ضروری ہے کہ یہاں ذہنوں کی ساخت یک قلم مختلف ہے۔ سمجھنے کا انداز جدا جدا ہے۔ جو بات آپ کو اصول کی حد تک صحیح معلوم ہوتی ہے۔ وہی دوسرے کے نزدیک مشکوک اور یکسر باطل۔
فکرواستدلال کے تین اصول
ہم نے جہاں تک اس مسئلہ کی تفصیلات پر غور کیا ہے۔ یہاں پر تین مقدمات ایسے ہیں جن کی وضاحت ہوجانا چاہئے۔ بلکہ یوں سمجھئے یہ تین اصول ہیں جن کو بہر آئینہ ہر بحث میں مرعی رہنا چاہئے۔ ہم نے تمام اختلافی مسائل پر غور کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ فکرواستدلال میں جہاں کہیں فروگذاشت ہوتی ہے وہ انہیں تین حقیقتوں کو نظر انداز کر دینے سے ہوتی ہے۔ یعنی ان تین مقدمات کا درجہ یہ ہے کہ ان پر غور وفکر کر لینے سے ہر ہر مسئلہ میں آپ کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے اور اس کی مدد سے آپ فوراً معلوم کر سکتے ہیں کہ استدلال کے اشہب تیز خرام نے کہاں ٹھوکر کھائی ہے۔ ان میں ایک حقیقت نفسیاتی مزاج کی ہے اور دوسری دومنطقی انداز کی۔
مناظرانہ ذہنیت
پہلے نفسیاتی حقیقت کو لیجئے۔ کسی مسئلہ پر غور کرتے وقت یہ نہایت ضروری ہے کہ ذہن پر مناظرانہ کیفیتیں اثر انداز نہ ہوں۔ یعنی آپ بحث کے موڈ میں نہ ہوں کہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے ہوتے ہوئے یہ ناممکن ہے کہ نظروفکر میں وہ کلیت وجامعیت پیدا ہوسکے۔ جو دین کے اسرار تک انسان کو پہنچاتی ہے۔
مناظر میں سے بڑا نقص جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ باوجود ذہانت اور جودت طبع کے کبھی اس لائق نہیں ہوپاتا کہ دین کے مزاج کلی پر غور کر سکے۔ دین کے مصالح پر نظر ڈال سکے کہ اس کے اصول وبنیادی تقاضے کیا ہیں؟ اس کے الہیات، اخلاق، عبادات اور معاشرتی واقتصادی نقشے انسان کو کس منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کے ماننے سے کس نوع کا طبقہ ظہور پذیر ہوتا ہے؟ کس طرح کے اخلاق سے انسان آراستہ ہوتا ہے اور عادات وعوائد میں کیا تغیر رونما ہوتا ہے؟ وہ کیا سلجھاؤ اور شائستگی ہے جو اس کا مایۂ افتخار ونازش ہے؟ یعنی مذہب کا وہ جمال اور حسن جو