کرشن قادیانی
۱۹۶۳ء میں ایک قادیانی صاحب قلم مرزاشکر علی کلوی نے ایک کتابچہ ’’کرشن ثانی اور جنگ مہابھارت ثانیہ‘‘ لکھا۔ یہ کتابچہ لاہور آرٹ پریس سے شائع ہوا اور ۶۴صفحات کے اس کتابچے میں اکھنڈ بھارت کے لئے قادیانیوں کی خواہشات اور کوششوں کا تذکرہ بھی ہے اور اکھنڈ بھارت کے لئے قادیانیوں کے دلائل بھی۔ کتابچے کے آغاز میں مرزاغلام احمد قادیانی کا ارشاد درج ہے۔ ’’جیسا کہ خداتعالیٰ نے مجھے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا۔ ایسا ہی ہندوؤں کے لئے بطور اوتار کے ہوں۔ گویا کہ راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا۔‘‘ (لیکچر سیالکوٹ ص۳۳، خزائن ج۲۰ ص۲۲۸)
اس کے بعد مرزاغلام احمد قادیانی کی ۱۹۰۸ء کی لاہور کی تقریر درج ہے۔ ’’پس ہندو مسلمان آپس میں صلح کر لیں اور جس قوم میں کوئی زیادتی ہو تو اس زیادتی کو وہ قوم ترک کر دے۔ وگرنہ باہم عداوت کا تمام گناہ اس قوم کی گردن پر ہوگا۔ ہاں اگر آپ صاحبان یہ اعتراض پیش کریں کہ مسلمان گائے کا گوشت استعمال کرتے ہیں اور ہم گائے کو پوجتے ہیں۔ کیونکر صلح ہوسکتی ہے۔ میں کہتا ہوں اگر ہندو قوم اس پر ہم سے صلح کرنے کو تیار ہو جائے تو ہم گائے کا گوشت کھانا ترک کردیںگے۔ اگر ہم میں سے کوئی گائے کا گوشت کھائے تو ہم بطور تاوان چار لاکھ روپے ادا کرنے کو تیار ہیں۔‘‘ (پمفلٹ مذکورہ ص۱۴،۱۵)
اکھنڈ بھارت کے لئے قادیانی ہندوؤں سے ہر قیمت پر صلح کرنے کو تیار ہیں۔ چاہے اپنی روایات قربان کرنی پڑیں۔ اس لئے کہ مرزا قادیانی کرشن ثانی بھی ہیں اور جب تک اکھنڈ بھارت نہ بنے۔ کرشن کی تعلیمات عام نہیں کی جاسکتیں۔
قادیان کیلئے بے چینی
اس کے علاوہ یہ بھی وجہ ہے کہ قادیانیوں کا قبلہ یعنی قادیان ہندوستان میں ہے جہاں پہنچنے کے لئے یہ لوگ بیتاب ہیں۔ اسی کتابچے میں اس بے چینی کو سمویاگیا ہے۔
’’کیونکہ بن بانس کے سال قریب الاختتام ہیں اور بن باسیوں کی فریادآکاش کو ہلاچکی ہے اور وہ اپنے وطن کے درشن کے لئے بیحد بے قرار وبیتاب ہیں۔ سوپراتھنا کرتے ہیں۔ کاش پرماتما جلدی ہی ہمیں اپنی نگری جنم بھومی میں پہنچادے۔‘‘ (پمفلٹ مذکورہ ص۲۶،۲۷)
پاکستان قادیانیوں کے لئے بن باس ہے۔ جہاں سے یہ لوگ اپنی جنم بھومی (ہندوستان) پہنچنے کے لئے بیتاب ہیں اور وہاں پہنچنے کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اس پمفلٹ