لامحالہ ہم سب سے پہلے اسی پیمانے سے اسے جانچیں گے۔ ہماری کم سے کم توقعات اس سے جوہوں گی وہ یہ ہوں گی کہ اس نے اگرچہ قوم کے سامنے کوئی لائحہ عمل نہیں رکھا۔ زمانے کے مسائل کو نہیں سمجھا۔ موجودہ تقاضوں پر نظر نہیں ڈالی۔ سیرت وعمل کے اعتبار سے کوئی بلند نمونہ نہیں چھوڑا۔ کم از کم اتنا تو کیا ہوتا کہ ابوالکلام کا ’’الہلال‘‘ اس کے جمال ادبی کے سامنے گہناجاتا۔ جمال کا وہ مسدس جو نصف صدی سے گونج رہا ہے خاموش ہوجاتا اور حکیم الامت ڈاکٹر اقبال کی شاعری اس کی چاکری کرتی۔ یہ کیابدمذاقی ہے کہ براہین احمدیہ شب ہجراں سے بھی زیادہ طویل ہونے کے باوجود ایک پیرا اور جملہ اپنے اندر ایسا نہیں رکھتی کہ جس سے ذوق کی تسکین ہوسکے۔ کیا یہی نبوت ہے۔ کیا اﷲ تعالیٰ کا معیار بھی معاذاﷲبدلتا رہتا ہے۔ یعنی یا وہ زمانہ تھا کہ زبور عطا کرتا تھا جس سے پہاڑوں کے کلیجے متاثر ہوتے۔ طیوراس کے نغموں پر سردھنتے۔ وہ انجیل اتارتا جس سے کہ یونانی ورومی اپنی حکمت وفلسفہ بھول جاتے اور ان لوگوں کے پیچھے ہولیتے جنہوں نے کہیں تعلیم نہیں پائی۔ قرآن میں ادب کے ان ان معجزات کو نازل فرماتا کہ مخالفین بھی سنتے تورقت طاری ہوجاتی۔ (تفیض اعینہم من الدمع) اور اب یہ حال ہے کہ ’’خاکسار پیپرمنٹ‘‘ (البشریٰ ج۲ص۹۴) اور ’’کمترین کا بیڑا غرق‘‘(البشریٰ ج۲ص۱۲۱) ایسے عجائب سے نوازا جارہا ہے؟ کیا یہ الہامات اسی چشمہ علم وحکمت کا ترشح ہیں جس سے زبور کے نغمہ ہائے شیریں نے استفادہ کیا۔ جس کی سطح سے سلیمان کے امثال وکلمات ابھرے۔ جس سے انجیل نے فیض پایا اور سب سے آخر میں جس کی تجلیات نے قرآن کی ایک ایک آیت کو روشنی بخشی۔
کیا یہ پیغمبر ہے؟
ایک نفسیاتی تجزیہ
نبوت کی پرکھ کے کئی انداز ہیں۔ ایک انداز اس کی روز مرہ کی زندگی کا ہے۔ اس میں ایسا سلجھائو ایسی پاکیزگی اور بلندی ہونا چاہئے کہ وہ عام انسانوں سے قطعی مختلف ہو۔ ایک انداز دوسروں سے معاملہ کا ہے۔ یہ بھی ایسا ہونا چاہئے کہ اس پر’’حقوق العباد‘‘ کی بنیاد رکھی جاسکے۔ کچھ لوگ معجزات وخوارق کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں گے اور کچھ لوگ صرف تعلیمات کو معیار ٹھہرائیں گے کہ اس سلسلہ کی اہم کڑی یہی ہے۔ کیونکہ اگر ایک شخص دعویٰ نبوت کے ساتھ ساتھ ایسا پیغام بھی پیش کرتا ہے جو تمام انسانی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور جس سے زندگی کی تمام الجھنیں دور ہوتی ہیں تو بلاشبہ یہ اﷲ کا پیغمبر ہے اور اپنے دعویٰ میں سچا ہے۔ انبیاء کی پہچان کی یہ مختلف