شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: ’’سن او مولوی سن، خدا قادر مطلق ہے۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اس جہالت پر ہمارا علم کروڑوں مرتبہ قربان کردیا جائے تو بھی ایسی جہالت کی قیمت ادا نہیں ہوتی۔ ظالم نے کوزے میں دریا بند کردیا۔
انکار معجزہ کی ایک مثال سنئے۔ قرآن شریف میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم کو لوگوں نے آگ میں پھینک دیا۔ اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’اے آگ تو ابراہیم کے لئے ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی کا سبب بن جا۔‘‘ (قرآن الحکیم)
ہمارے فطرت نواز دوست اس کی تاویلیں کرتے اور کہتے ہیں کہ قانون فطرت یہ ہے کہ آگ انسان کو جلادیتی ہے۔ لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ ابراہیم اس میں گرتے اور جل نہ جاتے۔ پس آگ سے مراد فتنہ اور تکلیف ہے۔ وغیرہ وغیرہ! لیکن ان بھلے مانسوں سے پوچھئے کہ کیا یہ واقعہ نہیں کہ یورپ کے پہاڑ الپس کی بلندی پر آگ میں اتنی قوت نہیں رہتی کہ وہ انڈے کو ابال سکے۔ ہم اگر انڈے کو آنچ زیادہ دیں تو وہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ لیکن الپس کی بلندی پر اگر سو سال تک بھی آگ جلاتے رہیں تو بھی انڈا ابلتا نہیں۔ اس کا جلنا تو بڑی بات ہے۔ بتائیے وہاں آگ کی فطرت کیوں بدل جاتی ہے۔
اس کے جواب میں ہمارے فطرتی دوست کہیںگے کہ وہاں فطرت کے ایسے سامان پیدا کردئیے ہیں کہ آگ کا زور کم ہوجاتا ہے۔ خوب، تو معلوم ہوا کہ بعض اسباب ایسے بھی ہیں جو آگ کو بے ضرر کر سکتے ہیں۔ الپس دنیا کا بلند ترین پہاڑ نہیں۔ ممکن ہے کہ اس سے زیادہ بلند پہاڑ پر آگ کسی چیز کو بھی جلا نہ سکے۔ آخر یہ اسباب کس نے پیدا کئے خدا نے، تو کیا ابراہیم علیہ السلام کے معاملہ میںآگ کو بے بس کرنے کے متعلق خداوند تعالیٰ کو جو قدرت حاصل ہے وہ زائل ہوچکی تھی۔ (معاذ اﷲ) اور اگر زائل نہ ہوئی تھی تو پھر آپ کو اس پر ایمان لانے میں کیا عذر ہے؟ اور آپ اس کی تاویلیں کیوں تلاش کرتے پھرتے ہیں؟ کیا خدا زمین پر وہ سامان پیدا نہ کرسکتا تھا جو بلند پہاڑ پر اس نے پیدا کر رکھے ہیں؟
غرض مرزاقادیانی نے ان فروعی مسائل کو چھیڑ کر دین فطرت کو نقصان پہنچایا ہے۔ میں اس بحث کو اب ختم کرتا ہوں۔ اس لئے کہ اس سے زیادہ لکھنے کی حاجت ہی نہیں۔ کیونکہ کج بحث کو کوئی قائل نہیں کر سکتا اور صاحب شعور کے لئے جو کچھ تحریر ہوا وہ کافی ہے۔
قسط بست وہفتم (۲۷)
یہ سوال کہ آخر مرزاقادیانی نبی مبعوث ہوئے تو کسی غرض سے تشنۂ جواب رہا جاتا