گی۔ خواہ پہلے ہی باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خداتعالیٰ بیوہ کر کے اس کو میری طرف لے آئے۔‘‘ (انتہی ملخصاً)
۴… ’’میری اس پیش گوئی میں نہ ایک بلکہ چھ دعویٰ ہیں۔ اوّل نکاح کے وقت میرا زندہ رہنا، دوم، نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینا زندہ رہنا۔ سوم پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا جلدی سے مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا۔ چہارم اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مرجانا۔ پنجم اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں۔ اس لڑکی کا زندہ رہنا۔ ششم پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کی تمام رسموں کو توڑ کر باوجود سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آجانا۔ اب آپ ایمان سے کہیں کہ یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہیں اور وہ اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں کہ کیا ایسی پیش گوئی سچے ہو جانے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتی ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۵، خزائن ج۵ ص۳۲۵)
۵… ’’وہ پیش گوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے۔ بہت ہی عظیم الشان ہے۔ کیونکہ اس کے اجزاء یہ ہیں۔ (۱)کہ مرزااحمد بیگ ہوشیارپوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو۔ (۲)اور پھر داماد اس کا جو اس کی دختر کلاں کا شوہر ہے۔ اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔ (۳)اور پھر یہ کہ مرزااحمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو۔ (۴)اور پھر یہ کہ وہ دختر بھی تانکاح اور تاایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔ (۵)اور پھر یہ کہ یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔ (۶)اور پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جاوے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام واقعات انسان کے اختیار میں نہیں۔‘‘ (شہادت القرآن ص۸۰، خزائن ج۶ ص۳۷۶)
۶… ’’میں بالآخر دعاء کرتا ہوں کہ اسے خدائے قدر علیم اگر آتھم کا عذاب مہلک میں گرفتار ہونا اور احمد بیگ کی دختر کلاں کا آخر اس عاجز کے نکاح میں آنا یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تومجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر۔‘‘
(اشتہار انعامی چار ہزار روپیہ، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۶)
قسط بستم
محترمہ محمدی بیگم صاحبہ سے زوجیت کا تعلق پیدا کرنے کے لئے مرزاقادیانی نے جو الہامات شائع کئے ان میں سے بعض میں قسط گذشتہ میں بطور نمونہ پیش کرچکا ہوں۔ چند اور الہامات جو اسی قبیل کے ہیں ملاحظہ فرمائیے۔
۷… ’’نفس پیش گوئی سے اس عورت (محمدی بیگم) کا اس عاجز کے نکاح میں