اصولوں کا اعتدال کے ساتھ استعمال ہوسکے۔ نزاعی مسائل میں بالخصوص جب کسی فیصلہ پر پہنچنا مقصود ہو۔ ذہن کو اس تجریدی سطح پر لے آنا چاہئے کہ گویا پہلی دفعہ آپ ایک موضوع پر غور کررہے ہیں اور کوئی سابقہ تعصب یا پہلا عقیدہ آپ کے آزادانہ غور وفکر میں حائل نہیں۔
ہرشے کے دومزاج ہوتے ہیں
طبیب ممکن ہے اس حقیقت کو نہ مانیں۔ مگر یہ ایک سچائی ہے کہ دوا کا مزاج دوہرا ہوتا ہے۔ ایک مزاج وہ ہوتا ہے جو ہر ہر دوا میں قدرت نے پنہاں رکھا ہے اور ایک مزاج وہ ہے جو دوائوں کے ساتھ ملانے سے ابھرتا ہے۔ یعنی بنفشہ کی ایک خصوصیات وہ ہیں جن کی وجہ سے وہ بنفشہ ہے اور کچھ نئے اثرات اور نئی کیفیات ہیں۔ جو دوسری دوائوں کے ساتھ ملنے سے اس میں خود بخود پیدا ہوجاتی ہے۔ مفرد ومرکب کے مزاج وخصوصیات کا اختلاف اتنا واقعی اور حقیقی ہے کہ اس میں قطعاً اختلاف کی گنجائش نہیں۔ بسا اوقات مختلف ادویہ کو باہم ملانے اور آمیخت کرنے سے اس طرح کا ایک نیا مزاج پیدا ہوجاتا ہے اور نئی نئی خصوصیات ظہور پذیر ہوتی ہیں کہ خودطبیب حیران رہ جاتا ہے۔
طبعیات کی ایک مثال
اس حقیقت کو زیادہ وضاحت سے سمجھنے کے لئے طبعیات کے اس عام مسئلہ پر غور کیجئے کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن دوگیسیں ہیں جن کو اگر علیحدہ علیحدہ دیکھاجائے تو کہیں نمی کا نشان نہیں ملتا۔ یعنی اگر تجربہ یہ نہ بتادے کہ دونوں کے باہم ملنے سے پانی معرض ظہور میں آتا ہے تو صرف ان دونوں کا الگ الگ مطالعہ اس نتیجہ تک نہیں پہنچاسکتا۔ کیونکہ دونوں کا مزاج اپنی طبعی خصوصیات کی وجہ سے پانی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ یہ دونوں بہرآئینہ گیسیں ہیں۔ جن میں مائیت کی بجائے آتش پذیری کی صلاحیتیں زیادہ نمایاں ہیں۔
مکانکی ثبوت
اسی اصول کومکانکی انداز سے دیکھئے کہ ایک مشین، ایک انجن اور کل پرزوں کا بہت بڑا مجموعہ اس کا ایک وظیفہ ہے اور وہ جن پرزوں پر مشتمل ہے ان کا اپنا علیحدہ علیحدہ ایک کام ہے۔ اگر ایک شخص ریڈیو کے بکھرے ہوئے اجزاء کو دیکھے تو وہ کسی ایک پرزے کو دیکھ کر یہ پیشین گوئی نہیں کرسکتا کہ یہی جب دوسرے اجزاء سے مشین میں جڑے گا تو اس میں سے نغمہ وموسیقی کے چشمے ابلنے لگیں گے۔