کے قتل کی سازش کرتے ہیں۔ لیکن وہ محصور مکان کے دریچہ سے نکل کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور مکہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اسلام میں مکہ چھوڑنے کا سال ہجری کہلاتا ہے۔
غار کی تنہائی میں دشمنوں کے خوف سے کانپتے ہوئے ضعیف العمر ابوبکرؓ نے کہا ہم صرف دو ہیں۔ محمدؐ نے جواب دیا۔ ہم دو نہیں بلکہ تین ہیں۔ کیونکہ خدا بھی ہمارے ساتھ ہے۔
اس کے بعد وہ مدینہ چلے جاتے ہیں۔ جہاںآپؐ کو بہت سے انصار مل جاتے ہیں۔ نو مسلموں کی تعداد روز افزوں ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آپؐ ایک سلطنت کے بادشاہ بنا دئیے جاتے ہیں۔ یہاں سے آپ کی پبلک لائف کا آغاز ہوتا ہے۔ اب ان کے لئے لازمی نہیں کہ ایک خاموش زاہد کی سی زندگی بسر کریں۔ برخلاف اس کے انہیں ہزارہا لوگوں کی رہنمائی کرنا اور ان کے مستقبل پر غور کرنا ہے۔
مکہ سے دشمن آپؐ کا تعاقب کرتے ہیں اور آپؐ ایک چھوٹی سی فوج جمع کر کے ان کا مقابلہ کرنے کی غرض سے نکلتے ہیں۔ دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مگر انہیں ایک عظیم الشان اور مشہور ومعروف فتح حاصل ہوتی ہے اور باوجود اس فتح عظیم کے محمدؐ کا کریکٹر یہ ہے کہ صرف دو آدمی قتل کئے جاتے ہیں اور اپنے زمانہ کی رسم کے خلاف قیدیوں سے نہایت مہربانی اور نرمی کا سلوک کیا جاتا ہے۔ مسلمان انہیں روٹی دیتے ہیں اور خود کھجوریں کھاتے ہیں۔
اس کے بعد دس سال کی کشمکش کا زمانہ آتا ہے اور اس عرصہ میں سینکڑوں آدمی آپؐ کے پاس جمع ہوجاتے ہیں۔ میرے خیال میں تم بمشکل اندازہ کر سکو گے کہ محمدؐ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے کی کس قدر طاقت رکھتے تھے اور یہ کہ اردگرد کے لوگوں کو آپؐ سے کس قدر محبت تھی اور آج بھی مسلمانوں کو آپؐ سے کس قدر عقیدت والفت ہے۔
۸؍جون۶۳۸ء کو اس زمانہ کا آخری سین نظر آتا ہے۔ محمدؐ اس قدر ناتواں ہوگئے ہیں کہ اکیلے کھڑے بھی نہیں ہوسکتے۔ علیؓ اور دوسرے صحابہؓ آپ کو سہارا دے کر مسجد میں لے جاتے ہیں۔ آپؐ یہ پوچھنے کے لئے آواز بلند کرتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص تو نہیں ہے جس کے ساتھ انہوں نے کوئی سختی کی ہو یا جس کا کوئی قرض ان کے ذمہ ہو۔ ایک شخص ہلکی سی رقم کا مطالبہ کرتا ہے جو فوراً ادا کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد دعاء کے الفاظ دھیمے ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ آواز بالکل سنائی نہیں دیتی اور محمدؐ اس جسم فانی کو چھوڑ کر زیادہ اعلیٰ اور زیادہ نورانی دنیاؤں میں اپنا کام کرنے کی غرض سے چلے جاتے ہیں۔‘‘