تک ایسے عقیدہ پر قائم رہے جو نہ صرف شرک تھا بلکہ آگے چل کر اس کے دعویٰ مسیحیت کے راستہ میں ایک نہ ہلنے والی مضبوط چٹان کی طرح حائل ہونے والا تھا۔ احمدی بھائیو! غور کرو پھر غور کرو کیا انبیاء صادقین سے ایسا ہونا ممکن ہے؟ ہرگز نہیں سو ہزار بار ہرگز نہیں۔
احمدی مولوی صاحب یہ تو بتلاؤ کہ جب کشف میں بقول مرزاقادیانی براہین احمدیہ رسول اﷲﷺ کے دربار میں پیش ہوکر قبولیت حاصل کر رہی تھی۔ کیا اس وقت یہ بیانات جن میں حصرت مسیح کی حیات ورفع آسمانی ونزول ثانی رقم تھی۔ اس میں سے کاٹ کر براہین احمدیہ پیش کی گئی تھی؟ یا کیا نعوذ باﷲ رسول اﷲﷺ کو بھی اس عقیدہ شرکیہ سے اس وقت تک خبر نہ تھی؟ افسوس ہے تمہاری قابل رحم حالت پر اور تعجب ہے تمہارے ان مباحثات ومناظرات پر۔
اٹھو اگر تم میں ہمت ہے تو کسی صادق رسول کی ایسی نظیر پیش کرو کہ برابر باون برس کی عمر ۱؎ تک شرک جیسی خطرناک غلطی میں مبتلا رہا ہو۔ تم ہرگز پیش نہ کرسکو گے۔ پھر کہتا ہوں کہ ہرگز ہرگز نہ پیش کرسکو گے۔ لہٰذا خدا سے ڈرو اور مخلوق کو دھوکہ نہ دو۔
اس ساری تقریر کا آخر مناظرہ تک کوئی جواب احمدیوں نے نہیں دیا۔
دوسری دلیل حضرت مسیح کے بجسم عنصری زندہ اٹھائے جانے پر
حضرت مولانا سیالکوٹی نے یہ پیش کی کہ: ’’قرآن شریف میں ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی اس کو سولی پر چڑھایا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔‘‘ (پ۶ سورہ النساء ع۲۱)
غور فرمائیے! آیت شریفہ میں الفاظ ’’وما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام بمعہ جسم عنصری ہے۔ اسی کی نسبت فرمایا: ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ بلکہ خدا نے اس
کو اپنی طرف اٹھالیا۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح معہ جسد عنصری آسمان پر اٹھائے گئے۔ ’’فتدبر ولا تکن من الکافرین‘‘
تیسری دلیل نزول مسیح از آسمان
چونکہ مرزائی باربار کہتے تھے کہ آسمان سے مسیح کے نازل ہونے پر کوئی دلیل پیش کرو۔ اس لئے حضرت مولانا صاحب نے مرزاقادیانی کی تحریرہی سے نزول از آسمان کی احادیث دکھائیں۔ چنانچہ آپ نے رسالہ (تشحیذ الاذہان ج۱ ش۲ ص۵، مارچ ۱۹۰۶ئ) سے مرزاقادیانی کا قول
۱؎ مرزائیوں کا اعتقاد ہے کہ براہین احمدیہ بعمر ۴۰سال مرزاقادیانی لکھنی شروع کی اور اس کے بارہ برس بعد تک حیات مسیح کے معتقد رہے۔ ملاحظہ حقیقت النبوۃ وغیرہ تالیفات میاں محمود احمد۔